بلاعنوان-جدون ادیبؔ ۔ کراچی

اسلم رضا غوری

لائبریرین
بلاعنوان
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے اپنی زندگی کی پہلی اورشاید آخری چوری کی۔ میری پہلی چوری ہی پکڑی گئی تھی، جب میں نے ابو کا پرانا اور خراب موبائل خان موبائل والے کو بیچا۔
میرے ابو ایک شاعر تھے اور شاعری بھی دکھوں اور غموں کی کیا کرتے تھے۔
دادا جان بہت اچھے مترجم تھے۔ وہ فارسی اور انگریزی سے ترجمہ کرتے تھے اور خود بھی مضمون وغیرہ لکھتے رہتے تھے۔ انھوں نے بہت کچھ کمایا تھا اور چند مکانات بنالیے تھے جن کے کرائے سے گھر بہت اچھے طریقے سے چل رہا تھا۔
ابو، دادا جان کے اکلوتے بیٹے تھے، مگر دادا جان سارا حساب اپنے پاس رکھتے تھے۔ وہ فیاضی سے پیسے خرچ کرتے تھے، ابو ان سے جھجکتے تھے اور پیسے نہیں مانگتے تھے اور نہ وہ دیتے تھے۔
مگر دادا جان ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتے تھے۔ امی کو ہر ماہ باقاعدگی سے بھاری رقم دیتے، مگر ساتھ تنبیہ کرتے کہ یہ رقم فضول قسم کے مشاعروں میں خرچ کرنے کے لیے نہیں ہے اور امی بھی ابو کو ضرورت پڑنے پر ہی کبھی کبھار رقم دے دیتیں اور نتیجہ یہ نکلتا کہ ابو مالی مسائل کا شکار ہو کر دکھ بھری شاعری کرتے رہتے۔
مجھے لگا بندھا جیب خرچ ملتا تھا اور اس کا بھی حساب دینا پڑتا تھا، دادا جان پیسے جمع کرنے پر زور دیتے تھے اور تھوڑے بہت پیسے جمع ہوجاتے تو مجھ سے ادھار کے نام پر لے لیتے اور امی کو دے کر کہتے کہ میں نے اپنے پاس حساب میں لکھ لیے ہیں۔ میرے کتنے ہی روپے دادا جان نے مجھ سے لیے اور پھر نہیں لوٹائے، لیکن یہ ضرور تھا کہ ضرورت کتنی ہی کیوں نہ ہو وہ ضرور پوری کرتے تھے۔ اچھے سے اچھا کھانا اور بہترین کپڑے اور جوتے ہمیں میسر تھے۔ غرض دنیا کی ہر نعمت میسر تھی۔
مجھے اس صاف ستھرے ماحول میں رہتے ہوئے چوری کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مجھے اپنے اسکول کے دوستوں کے ساتھ مختلف بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانے کی عادت پڑگئی۔ دوست یار کب تک اپنے پیسوں سے کھلاتے، انھوں نے بھی رویہ بدل لیا، بل کہ صاف صاف کہہ دیا کہ اگر میں ان کے ساتھ کسی بڑے ہوٹل جاتا ہوں تو اپنے پیسے خود دیا کروں۔
ہمارے گھر میں پیسے تو بہت تھے، مگر ایک ایک پیسے کا حساب تحریری طور پر رکھا جاتا تھا، اس لیے اگر میں امی، ابو یا دادا جان کے پیسے چراتا تو فوراً پکڑا جاتا، اس لیے میں نے گھر سے کوئی چیز چرانے کا فیصلہ کیا اور بد قسمتی سے میری نظر ابو کے موبائل پر پڑی جو کئی مہینوں سے میز کی دراز میں پڑا ہوا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس چوری کا کسی کو پتا نہیں چلے گا، مگر دوسرے ہی دن امی نے مجھ سے اس موبائل کے بارے میں پوچھ لیا اور میں نے اعتراف کرلیا کہ میں نے خان کو وہ موبائل تین سو روپے کا بیچ دیا ہے اور وہ پیسے دوستوں پر خرچ کردیے ہیں، جنھوں نے مجھ پر بھی خرچ کیا تھا۔
امی کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا۔ انھوں نے مجھے تین سو روپے دیے اور کہا کہ جاکر خان سے موبائل واپس لے آؤ، میں خان کے پاس گیا اور اسے موبائل واپس کرنے کو کہا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک آدمی کو پانچ سو روپے میں بیچ چکا ہے۔
میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ آخر میں نے مرے مرے لہجے میں کہا:
’’خان! دو سو روپے مجھ سے اور لے لینا، مگر بھائی! خدا کے لیے کسی طرح وہ موبائل واپس دلوادو، ورنہ میری سخت بے عزتی ہوجائے گی۔‘‘
خان نے وعدہ کیا کہ وہ اس آدمی سے ضرور بات کرے گا۔ گھر آکر میں نے امی کو یہ بات بتائی تو انھوں نے سر پیٹ لیا۔
امی نہیں چاہتی تھیں کہ یہ بات ابو کو پتا چلے، انھوں نے داداجان کو اعتماد میں لیا، انھیں بھی یہ جان کر بہت دکھ ہوا۔
دادا جان خود کو قصوروار ٹھہرارہے تھے کہ میں ان کی سختی کی وجہ سے اس حرکت کا مرتکب ہوا ہوں، مگر امی اصرار کررہی تھیں کہ ان کی تربیت میں فرق ہے اور میں خود کو پاتال کی گہرائیوں میں گرتا محسوس کررہا تھا۔
پھر اس دن کے بعد گھر میں اس موبائل فون کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ میں روزانہ خان کے پاس جاتا تھا۔ شروع شروع میں تو وہ آدمی ملا ہی نہیں اور پھر گاؤں چلا گیا۔ گاؤں سے آیا تو اس نے موبائل واپس کرنے سے انکار کردیا اور خان کے اصرار پر موبائل دو ہزار میں بیچنے کی پیش کش کی۔
میں نے خود پر لگے داغ کو دھونے کے لیے یہ نقصان برداشت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے سوچا کہ کوئی کام کرنا چاہیے، جس سے آمدنی ہو اور پیسے جمع کر کے اپنا موبائل واپس لے سکوں۔
’’تقی لائبریری‘‘ والے تقی بھائی نے مجھے کچھ دن پہلے گھروں میں اخبارات اور رسالے ڈالنے کا کام کرنے کی پیش کش کی تھی۔ میں نے ان سے رابطہ کر کے یہ کام حاصل کیا اور صبح سویرے اٹھ کر لوگوں کے گھروں میں رسالے اور اخبار ڈالنے لگا۔
ایک مہینے بعد میں دو ہزار روپے لے کر خان کے پاس گیا۔ خان نے اس آدمی کو دو ہزار روپے دے کر اس سے موبائل لے کر دے دیا۔ میں خوشی خوشی موبائل لے کر گھر پہنچا اور موبائل امی کے قدموں میں رکھ کر ان کے پیر پکڑلیے۔
امی نے مجھے کاندھے سے پکڑ کر اٹھایا اور میرے ماتھے پر پیار کیا۔ مجھے یوں لگا جیسے ایک فرحت انگیز ٹھنڈک میرے وجود میں اترگئی ہو۔
اسی دن دادا جان نے مجھے بلا کر پیار کیا اور میرا جیب خرچ دگنا کردیا۔ ساتھ ہی سمجھانے لگے کہ مجھے اخبار والا کام جاری رکھنا چاہیے، کیوں کہ کام یاب آدمی بننے کے لیے بارہ چودہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔
دادا جان نے مجھے پیش کش کی کہ وہ مجھے ترجمے کا کام سمجھاسکتے ہیں، تاکہ میں اس سے پیسے کماسکوں۔ میری انگلش اچھی تھی۔ دادا جان نے چند ہی ہفتوں میں مجھے ترجمہ نگار بنادیا اور ذراسی کوشش سے مجھے گھر بیٹھے ترجمے کا کام ملنے لگا۔
میں نے گریجویشن کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کے لیے داخلہ لیا تو ان دنوں دادا جان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔
ایک دن یونی ورسٹی سے گھر پہنچا تو دادا جان کو نازک حالت میں پایا۔ وہ کچھ عرصے سے زیر علاج تھے، ان کا علاج گھر میں ہی ہورہا تھا۔ اس دن دادا جان کی طبیعت بہت خراب تھی۔ ابو ان کے پیروں سے لپٹے رو رہے تھے اور معافی مانگ رہے تھے کہ وہ ان کی توقعات پر پورا نہیں اترسکے اور ایک ناکام انسان رہے۔
دادا جان نے مجھے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ انھوں نے مجھے قریب بلایا اور سینے سے لگاکر میرے ابو سے کہنے لگے:
’’موسیٰ بیٹے! تم ناکام نہیں ہوئے ہو۔ تم ایک کام یاب بیٹے کے باپ ہو۔ میرے پوتے نے سخت محنت کر کے اپنا نام بنا کر دکھایا ہے۔ تمھاری کام یابی کے لیے تمھارا بیٹا سند ہے۔‘‘
دادا جان کی بات نے ابو کو پر سکون کردیا۔ ان کے چہرے پر چھائی مایوسی اور ناکامی کے تاثرات ختم ہوگئے اور وہ طمانیّت سے مسکرائے۔ دادا جان نے کلمۂ شہادت پڑھا اور پر سکون نیند سوگئے۔
دادا جان کے جنازے میں میری نظر خان پر پڑی تو میں چونک اٹھا اور پھر اس کے ہاتھ میں سترہ سو روپے دیکھ کر مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا، وہ معذرت خواہانہ لہجے میں کہہ رہا تھا:
’’یہ پیسے میں نے تم سے دادا جان کے کہنے پر لیے تھے۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
میں ابھی تک حیران تھا، تاکہ تمھیں کچھ نصیحت ہو اور تم آئندہ کے لیے ایسی حرکت سے باز رہو۔‘‘
دادا جان (مرحوم) نے مجھے جو نصیحت کی اور جو میری رہ نمائی کی، اس نے مجھے بہت محنتی انسان بنادیا ہے۔
میں آج بھی اپنی صبح کا آغاز گھروں میں اخبار ڈالنے سے کرتا ہوں۔
رات گئے پڑھائی اورترجمے کا کام کرتا ہوں۔ میں آٹھ گھنٹے پڑھتا اور آٹھ گھنٹے کام کرتا ہوں۔
اور جب تعلیم مکمل کرلوں گا، تب بھی کم از کم بارہ گھنٹے کام ضرور کیا کروں گا، کیوں کہ آٹھ گھنٹے کام کرکے گزارا تو کیا جاسکتا ہے، مگر ترقی نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات بھی مجھے میرے دادا جان نے بتا ئی تھی۔
 
Top