بقاکی جنگ لڑرہےہیں،امریکہ اوربھارت مددکریں براہمداغ بگٹی

قمراحمد

محفلین
بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے صدر براہمداغ بگٹی کا یہ ٹیلی فونک انڑویو پاکستانی ٹی وی چینل "آج" کے پروگرام لائیو ود طلعت میں 18 اپریل 2009 کو ہوا۔ دوستوں سے گذارش ہے کے ِاِس انڑویو کو مکمل پڑھیئے۔ شکریہ

4.jpg

Interview1.jpg

Interview2.jpg

5.jpg

Interview3.jpg
 

خرم

محفلین
اصل بات وہی ہے کہ توانائی کے اس بحرانی دور میں انہیں اپنے لئے مزید ڈالر نظر آتے ہیں۔ غریب بلوچوں کی تو پھر بھی کچھ نہیں سُنی جانی۔ نواب بگٹی مرحوم کو ماہانہ کتنی رائلٹی ملتی تھی گیس کی اور اس رقم کا کتنا حصہ "بگٹیوں" پر خرچ ہوتا تھا وہ نہیں‌بتائیں گے یہ نواب ابن نواب۔ بھارت اور امریکہ یقیناَ انہیں‌شہہ دے رہے ہیں اسی لئے اتنا اچھل اچھل کر باتیں کررہے ہیں۔ حال تو یہ ہے کہ نوابوں‌کی سی زندگیاں گزارنے والوں کی رعایا کو جب ہسپتال جانا ہوتا ہے تو سینکڑوں‌میل تک کوئی ہسپتال نہیں ملتا۔ یہ بننے دیں‌تب نا۔ باتیں جتنی چاہے کروالو حقوق کی۔ اور جو رعایا ہیں ان کی، ان بچاروں کو تو غسل کے فرائض تک کا نہیں پتا اور مہینوں نہائے بغیر گزارتے ہیں، ان کو قبیلے کی عزت کے نام پر جہاں چاہتے ہیں ہنکا دیتے ہیں۔ اسی لئے تو پنجابیوں سے ڈرتے ہیں کہ اگر وہ آگئے تو پھر یہ لوگ جنہیں صدیوں سے بھیڑ‌بکریاں بنا کر رکھا ہے انہیں‌زبان مل جائے گی۔ اسی لئے لڑائی بھی ان علاقوں میں ہے جہاں بیرونی دنیا سے رابطہ نہیں ہے۔
 

راشد احمد

محفلین
یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ یہ لوگ خود ترقی نہیں چاہتے۔ یہ سب سردار ہیں اور ان کا مقصد اپنی رعایا کو دبانا ہے۔ اس لئے یہ اپنے لوگوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔اور اپنے اپنے علاقوں میں سکول یا کالج نہیں بننے دیتے۔ ان کی ذہنیت جاگیرداری ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب پاکستان بنا تھا تو ان لوگوں نے قیام پاکستان کی حمایت اس نیت سے کی تھی کہ پاکستان بنے گا تو ہم اپنی من مرضی کریں گے۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوا اور ان لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے مقاصد پورے نہیں ہورہے توانہوں نے بلوچی عوام کو بھڑکانا شروع کردیا اور نفرت پھیلانا شروع کردی۔


جب یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچوں کو حقوق نہیں دئیے جاتے تو اس چیز کی وضاحت نہیں‌کی جاتی کہ کون کونسے حقوق۔ بلوچستان کے خاص علاقوں میں‌تو سرداری ہیں کوئی بگٹی ہے کوئی مری ہے جو خود ترقی نہیں چاہتے کہ کہیں علاقے کے لوگ ان کے چنگل سے نہ نکل جائیں۔

اکبربگٹی کو عین اس وقت مارا گیا جب اس نے ہرچیز کی حدکردی تھی اسی طرح تین بلوچ رہنماوں کومارنے کا مقصد بھی شاید یہی تھاکہ یہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے حق میں تھے۔ یہ لوگ نہ تو اپنا اصل مسئلہ بتاتے ہیں صرف رولا ہی‌ڈالتے ہیں۔

اکبر بگٹی، خیربخش مری جیسے سردار حکومت میں رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقوں میں کتنے سکول، کالج، ہسپتال، یونیورسٹیاں بنائی ہیں اس کا اندازہ لگالیں۔ ابھی بلوچستان میں کوئی ترقیاتی پراجیکٹ شروع نہیں ہوتا تو یہ شور ڈالنا شروع کردیتے ہیں کہ اس پر صرف بلوچیوں کا حق ہے۔ سینڈک پراجیکٹ، کوسٹل ہائی وے، گوادر پورٹ جیسے پراجیکٹ کسی بلوچی نے تو شروع نہیں کئے۔
 

زین

لائبریرین
یہ پرانی باتیں چھوڑیئے اور مسئلہ کے حل کے لئے کچھ سوچیں ۔ یہاں‌ بلوچ بچہ بچہ آزادی کی بات کررہا ہے ۔

اب بھی اگر کچھ نہ کیا گیا تو خدانخواستہ خدانخواستہ آپ لوگوں‌کو بلوچستان آنے کے لئے ویزے کی ضرورت پڑے گی ۔
 

خرم

محفلین
مسئلہ کیا ہے اور کن کا پھیلایا ہوا ہے؟ بلوچ بچوں سے یہ پوچھئے کہ آزادی کیا ہے اور کس سے اور کیوں چاہئے؟
ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ ان سے کہئے پہلے جو اربوں روپے صوبے کو ملتے ہیں ان کا حساب لیجئے اپنے سرداروں سے۔ یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی ان بچوں کو؟
 

زین

لائبریرین
یہی رویہ تو معاملات کو الجھارہا ہے ۔

اربوں روپے اگر سرداروں کو ملتے ہیں تو گیس،سیندک، ریکوڈک، اور دیگر پروجیکٹس سے اربوں ڈالر مرکزی حکومت کو مل رہے ہیں‌۔ بلوچستان کا پورا بجٹ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے صوابدیدی بجٹ سے کم ہے۔

آپ لوگوں کے بچوں کو اچھی تعلیم ملتی ہیں، بڑے بڑے ادارے ہیں، روزگار بھی مل جاتا ہے ، وہاں فیکٹریاں ہیں صنعتیں‌ہیں،سڑکیں ہیں،سہولیات ہیں‌ ۔ بلوچستان میں کوئی فیکٹری کیوں ‌نہیں‌قائم کی گئی ؟



یہاں سرکاری تعلیمی ادارے تباہ ہیں ان میں پانی اور بجلی جیسی سہولیات تک میسر نہیں۔

سرکاری محکموں میں ملازمتوں اور باہر کے تعلیمی اداروں میں‌ بلوچستان کے کوٹے پر دوسرے صوبوں‌کے لوگ کیوں‌ قابض ہیں؟ جعلی ڈومیسائل بناکر باہر کے لوگوں کو کیوں تعینات کیا جاتا ہے ؟‌

پنجاب میں روٹی دو روپے کی ملتی ہے یہاں ‌دس روپے کی کیوں ہے؟؟

ملک بھر کو گیس فراہم کرنے والے علاقے سوئی میں گیس کی سہولت کیوں نہیں؟‌


اتنا فرق کیوں؟؟؟
 

زین

لائبریرین
ابھی ابھی ٹی وی پر خبر تھی کہ پنجاب پولیس کی تنخواہ سب سے زیادہ اور بلوچستان پولیس کی سب سے کم ہے ۔
 

عسکری

معطل
ہاں بھئی 1971 میں بنگالی بھی ایسا کہتے تھے اب راگ پرانا اور چہرے نئے آپ کے سرداروں نے جنت بنانا ہے تو ٹرائی کر لیں آزاد ہو کے ہم بھی تو دیکھیں ہمارے بھائی غلامی سے نجات پا کر سوئزرلینڈ جیسے بن جائیں گے جب
 

ساجد

محفلین
زین ، میرے خیال میں تو اس وقت سرحد پولیس تنخواہ کے معاملے میں زیادہ خوش قسمت ہے۔ بہر حال آپ کی بات میں وزن ہے کہ معاملات پر غور کیا جانا چاہئیے۔
 

زین

لائبریرین
ہاں بھئی 1971 میں بنگالی بھی ایسا کہتے تھے اب راگ پرانا اور چہرے نئے آپ کے سرداروں نے جنت بنانا ہے تو ٹرائی کر لیں آزاد ہو کے ہم بھی تو دیکھیں ہمارے بھائی غلامی سے نجات پا کر سوئزرلینڈ جیسے بن جائیں گے جب
میرا کوئی سردار نہیں‌ نہ ہی میں کسی سردار یا نواب کو مانتا ہوں۔ اور نہ ہی میں بلوچ ہوں۔
----------

اسی طرح کا رویہ ، یہاں‌کے لوگوں‌کے دلوں‌میں‌نفرتیں پیدا کررہا ہے۔ مسئلہ حل کرنے کے لئے کوششیں کرنے کی بجائے دھمکی آمیز رویہ اور طاقت کے استعمال نے ہی تو معاملہ الجھایا ہے ۔


زین ، میرے خیال میں تو اس وقت سرحد پولیس تنخواہ کے معاملے میں زیادہ خوش قسمت ہے۔ بہر حال آپ کی بات میں وزن ہے کہ معاملات پر غور کیا جانا چاہئیے۔

نہیں بھائی ۔ پنجاب پولیس کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں ۔

میں خبر ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں‌۔
 

عسکری

معطل
یار یہ کیسی اکائی ہے کیسا ملک ہے جس کو ہر وقت ٹوٹنے کا خطرہ رہتا ہے ہم کیوں منتیں کر کر کے اس ملک کو بچائیں جس کو دیکھو ایک ہی بات سندھ سرحد بلوچستان کشمیر میں ہر دوسرا لیڈر پاکستان کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے الطاف حسین سے لے کر براہمداغ تک تو سندھی وڈیروں سے لے کر پختونستان تک ہر کسی کو آزادی چاہیے اب میں پچھلے 10 سال سے موجود اپنے دل کے خدشات کو خدا حافظ کہتے ہوئے یہ کہوں گا اگر ان سب نے مل کر رہنا ہے تو جی بسم اللہ نہیں تو ختم کرو یہ بھان متی کا کنبہ اور دو سب کو آزادی جاؤ اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا لو ہم پنجاب کی عوام نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا متحد رکھنے کا سب کو اور اپنی بدنامی کا ہر بات کا طعنہ ملامت ہو اپنی ہر ناکامی پر پردہ پنجاب کا لیبل چڑھا لو آسانی سے اگر بلوچستان سندھو دیش پختونستان ہی بنانا ہے تو ہمیں بھی پنجابستان میں رہ کر خوشی ہو گی اور وقت دیکھے گا ہم لوگ ہی ترقی کرتے جائیں گے حال کی طرح اور باقیوں کا حال بنگلہ دیش جیسا ہو گا:notlistening:
 

زین

لائبریرین
ماشاء اللہ !
جسے بلوچستان کا مسئلہ سمجھ نہیں آیا ، آپ کی پوسٹ پڑھ کر سمجھ گیا ہوگا۔
 

خرم

محفلین
یہی رویہ تو معاملات کو الجھارہا ہے ۔

اربوں روپے اگر سرداروں کو ملتے ہیں تو گیس،سیندک، ریکوڈک، اور دیگر پروجیکٹس سے اربوں ڈالر مرکزی حکومت کو مل رہے ہیں‌۔ بلوچستان کا پورا بجٹ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے صوابدیدی بجٹ سے کم ہے۔

بلوچستان پاکستان کی آبادی کا چار فیصد ہے۔ یقیناَ ہر پاکستانی شہری تک وسائل کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہئے چاہے وہ بلوچ ہو، سندھی، مہاجر یا پختون یا پنجابی۔ لیکن کیا چار فیصد عوام کے لئے اتنا ہی بجٹ ہونا چاہئے جتنا چالیس فیصد کے لئے؟ یہاں میں یہ نہیں کہہ رہا کہ انہیں سہولیات زندگی نہیں فراہم ہونا چاہئیں، صرف یہ کہ بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم کی بات از خود غیر منصفانہ ہے۔

آپ لوگوں کے بچوں کو اچھی تعلیم ملتی ہیں، بڑے بڑے ادارے ہیں، روزگار بھی مل جاتا ہے ، وہاں فیکٹریاں ہیں صنعتیں‌ہیں،سڑکیں ہیں،سہولیات ہیں‌ ۔ بلوچستان میں کوئی فیکٹری کیوں ‌نہیں‌قائم کی گئی ؟
بھیا اتنے سارے پراجیکٹ تو آپ نے خود ہی گنوا دئیے۔ جہاں تک بات ہے تعلیمی اداروں کی، یہ کیا وفاقی حکومت بناتی ہے؟ سڑکیں کیا وفاقی حکومت بناتی ہے؟ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ پہلے ان سرداروں سے تو پوچھئے کہ انہوں نے جو پیسے ملتے تھے بلوچستان کے لئے ان کا کیا کیا؟ اچھی تعلیم، فیکٹریاں، صنعتیں یہ سب تو صوبائی حکومت کے کام ہیں۔ سکول کیوں نہیں کھولے گئے بلوچستان میں؟ صرف اس لئے کہ لوگ اگر پڑھ لکھ گئے تو سرداروں کے سامنے آواز اُٹھائیں گے۔ یہی تو ظلم ہے۔ پہلے ان لوگوں کو خود انہوں نے سہولتیں نہیں دیں اور اب اس سب کچھ کا الزام وفاق پر لگا کر مزید اُلو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔


یہاں سرکاری تعلیمی ادارے تباہ ہیں ان میں پانی اور بجلی جیسی سہولیات تک میسر نہیں۔
بھائی کس نے کئے یہ ادارے تباہ؟ پاکستان میں کہاں سرکاری تعلیمی ادارے درست کام کر رہے ہیں؟ یہ سب مسائل کیا صرف بلوچستان کے ہیں؟

سرکاری محکموں میں ملازمتوں اور باہر کے تعلیمی اداروں میں‌ بلوچستان کے کوٹے پر دوسرے صوبوں‌کے لوگ کیوں‌ قابض ہیں؟ جعلی ڈومیسائل بناکر باہر کے لوگوں کو کیوں تعینات کیا جاتا ہے ؟‌
تو یہ جعلی ڈومیسائل بنتا کہاں ہے؟ بلوچستان میں ہی بنتا ہے نا؟ یہ رشوت ستانی، یہ اقرباء پروری یہ صرف بلوچستان کا مسئلہ ہے کیا؟ اس کے شکنجے میں تو سارا پاکستان ہے۔ تو کوشش ان مسائل کو سدھارنے کی ہونی چاہئے کہ مزید فساد پیدا کرنے کی؟

پنجاب میں روٹی دو روپے کی ملتی ہے یہاں ‌دس روپے کی کیوں ہے؟؟
پنجاب میں روٹی دو روپے کی کس نے کی؟ صوبائی حکومت نے۔ کیا بلوچستان کی حکومت ایسا قدم نہیں اُٹھا سکتی؟ پنجاب اور سندھ میں گندم تو ہر ایک کو ایک ہی دام پر فروخت ہوتی ہے۔ یہ تو وہ سرمایہ دار جو اس گندم/آٹے کو بلوچستان لاکر بیچتے ہیں ان کی ہوس کی وجہ سے روٹی دس روپے کی ہے۔ بلوچ عوام کیوں‌نہیں سرداروں کو کہتے کہ انہیں بھی روٹی اسی طرح‌دو روپے یا چلو تین روپے کی چاہئے؟ کیوں نہیں بلوچستان کی حکومت ایسے اقدامات کرتی؟

ملک بھر کو گیس فراہم کرنے والے علاقے سوئی میں گیس کی سہولت کیوں نہیں؟‌
یقیناَ ظلم ہے لیکن نواب بگٹی کئی عشروں سے اسی گیس کی رائلٹی کھاتے رہے ہیں، کیوں نہیں انہوں نے اپنے علاقے کو گیس کی سہولت فراہم کروائی؟ گورنر رہے کئی دفعہ صوبے کے، ملک کے سیاستدانوں میں بڑا اونچا مقام رکھتے تھے، کیوں نہ انہوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لئے کام کیا؟ کروڑوں روپے ماہانہ ملتے تھے انہیں، کتنے میں بچھ جاتی گیس کی پائپ لائن؟ کتنے میں بن جاتے آٹھ دس سکول، چار پانچ کالج، دو تین ہسپتال؟ اس کا سوال کیوں نہیں پوچھتے ہمارے بھائی؟

اتنا فرق کیوں؟؟؟
کوئی فرق نہیں۔ مسائل بلوچستان کے بھی وہی ہیں جو باقی پاکستان کے۔ بات صرف یہ ہے کہ سردار ذمہ داری اپنے کاندھوں سے اُتار کر پاکستان کے سر منڈھ دینا چاہتے ہیں‌اور کوئی پلٹ کر ان سے سوال کرنے والا نہیں کہ پھر اس کا کام تمام۔
 

زین

لائبریرین
بلوچستان پاکستان کی آبادی کا چار فیصد ہے۔ یقیناَ ہر پاکستانی شہری تک وسائل کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہئے چاہے وہ بلوچ ہو، سندھی، مہاجر یا پختون یا پنجابی۔ لیکن کیا چار فیصد عوام کے لئے اتنا ہی بجٹ ہونا چاہئے جتنا چالیس فیصد کے لئے؟ یہاں میں یہ نہیں کہہ رہا کہ انہیں سہولیات زندگی نہیں فراہم ہونا چاہئیں، صرف یہ کہ بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم کی بات از خود غیر منصفانہ ہے۔

جی بلوچستان کی کل آبادی لاہور سے کم ہے ، اگر حکومت چاہتی تو یہاں صرف چند فیکٹریاں لگا کر یہاں روزگار کا مسئلہ ختم کرسکتی تھی۔
بجٹ تو کم از کم اتنا رکھنا چاہئے کہ صوبائی حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں، نئے سکیمات شروع کریں ۔صوبائی حکومت کے پاس ملازمین کو تنخواہیں‌دینے کی رقم بھی نہیں ۔ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں کوئی نئی سکیم شامل نہیں ہوئی ۔حکومت کو ملازمین کی تنخواہوں کے لئے سٹیٹ بینک سے قرض لینا پڑا ۔ گزشتہ مہینے تک بلوچستان حکومت کے ذمے 17 ارب روپے سے زائد اوور ڈرافٹ تھا جن کی مد میں‌ماہانہ 50 کروڑ روپے سود دیا جاتا تھا ۔ اب جاکر وفاقی حکومت نے یہ رقم خود ادا کرنے کا کہا ہے ۔
بلوچستان کے وسائل بہت زیادہ ہیں لیکن ان پر یہاں‌کے عوام کا اختیار نہیں ، 1953 سے نکلنے والی گیس کی رائلٹی کی مد میں وفاق بلوچستان کا سو ارب سے زائد کا مقروض ہے ،اگر یہ رقم ادا کردی جائے تو صوبہ مالی طور پر مستحکم ہوجائے گا۔ سوال یہ رقم کیوں ‌ادا نیہں کی جاتی ؟
سندھ اور پنجاب کی گیس رائلٹی بلوچستان سے کئی سو روپے زیادہ ہے ، یہ امتیازی سلوک کیوں ؟

اس کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ،بلوچستان کی عوام کا مطالبہ کیا ہے کہ فنڈز پسماندگی کی بنیاد پر تقسیم ہونے چاہیئں ۔

بھیا اتنے سارے پراجیکٹ تو آپ نے خود ہی گنوا دئیے۔ جہاں تک بات ہے تعلیمی اداروں کی، یہ کیا وفاقی حکومت بناتی ہے؟ سڑکیں کیا وفاقی حکومت بناتی ہے؟ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ پہلے ان سرداروں سے تو پوچھئے کہ انہوں نے جو پیسے ملتے تھے بلوچستان کے لئے ان کا کیا کیا؟ اچھی تعلیم، فیکٹریاں، صنعتیں یہ سب تو صوبائی حکومت کے کام ہیں۔ سکول کیوں نہیں کھولے گئے بلوچستان میں؟ صرف اس لئے کہ لوگ اگر پڑھ لکھ گئے تو سرداروں کے سامنے آواز اُٹھائیں گے۔ یہی تو ظلم ہے۔ پہلے ان لوگوں کو خود انہوں نے سہولتیں نہیں دیں اور اب اس سب کچھ کا الزام وفاق پر لگا کر مزید اُلو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے جتنے بھی پراجیکٹ گنوائے ہیں ان میں سے کوئی بھی بلوچستان حکومت کے دائرہ اختیار میں‌نہیں آتا، ریکوڈک، سیندک پراجیکٹ کے معاہدے چین کے ساتھ کئے گئے ہیں ۔گوادر کا معاہدہ سنگاپور سے کیا گیا ہے ، تمام منافع غیر ممالک اور مرکزی حکومت کو ملتا ہے ، بلوچستان حکومت کو جو منافع ملتا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔
تعلیمی ادارے کی جہاں‌تک بات ہے تو باقی چھوڑیئے صرف بلوچستان یونیورسٹی کو ہی لے لیجئے ۔ یہ ادارہ کئی عرصے سے مالی بحرانوں‌کا شکار ہے کیونکہ وفاقی حکومت کے ماتحت ہائیر ایجوکیشن نے فنڈز بند کردیئے ہیں ۔ وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی پروفیسر معصوم خان یاسین زئی نے گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں فنڈز نہ ملنے کی صورت میں ادارے کے بند ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا ہے ۔

میں سرداروں اور بلوچستان کے حکمران طبقہ کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیتا لیکن وفاق نے ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ سوتیلا رویہ روا رکھا۔

بھائی کس نے کئے یہ ادارے تباہ؟ پاکستان میں کہاں سرکاری تعلیمی ادارے درست کام کر رہے ہیں؟ یہ سب مسائل کیا صرف بلوچستان کے ہیں؟
بجایا فرمایا آپ نے یہ مسئلہ صرف بلوچستان میں نہیں‌ لیکن باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بہت خراب ہے ۔
ہمارے علاقے جس کی آبادی 50 ہزار سے زیادہ ہیں ، وہاں کوئی مڈل سکول نہیں ۔ پرائمری کے بعد بچوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے پانچ سے دس کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے ۔ اکثر بچے اسی وجہ سے آگے نہیں پڑھ سکتے۔ یہی حالات پورے صوبے کی ہے کیونکہ رقبہ زیادہ اور آبادی کم ہے ۔

صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس کی تھی ، مجھے ان کی پریس کانفرنس کے کچھ اعداد شمار یاد ہے ۔ انہوں‌نے بتایا تھا کہ صوبے میں چودہ سو کے قریب ایسے پرائمری سکول ہیں جہاں‌بچے درختوں کے سائے میں‌پڑھتے ہیں۔
ایک حیرت انگیز بات یہ بھی بتائی کہ پانچ ہزار کے قریب ایسے سکول ہیں جہاں ایک استاد پڑھاتا ہے ۔ اور ایک ہزار ایسے سکول بتائیں جہاں طالب علموں کی تعداد کے تناسب سے اساتذہ نہیں ۔

پنجاب میں روٹی دو روپے کی کس نے کی؟ صوبائی حکومت نے۔ کیا بلوچستان کی حکومت ایسا قدم نہیں اُٹھا سکتی؟ پنجاب اور سندھ میں گندم تو ہر ایک کو ایک ہی دام پر فروخت ہوتی ہے۔ یہ تو وہ سرمایہ دار جو اس گندم/آٹے کو بلوچستان لاکر بیچتے ہیں ان کی ہوس کی وجہ سے روٹی دس روپے کی ہے۔ بلوچ عوام کیوں‌نہیں سرداروں کو کہتے کہ انہیں بھی روٹی اسی طرح‌دو روپے یا چلو تین روپے کی چاہئے؟ کیوں نہیں بلوچستان کی حکومت ایسے اقدامات کرتی؟

جب حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے لئے رقم نہیں تو وہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے کیا کرے گی ؟

یقیناَ ظلم ہے لیکن نواب بگٹی کئی عشروں سے اسی گیس کی رائلٹی کھاتے رہے ہیں، کیوں نہیں انہوں نے اپنے علاقے کو گیس کی سہولت فراہم کروائی؟ گورنر رہے کئی دفعہ صوبے کے، ملک کے سیاستدانوں میں بڑا اونچا مقام رکھتے تھے، کیوں نہ انہوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لئے کام کیا؟ کروڑوں روپے ماہانہ ملتے تھے انہیں، کتنے میں بچھ جاتی گیس کی پائپ لائن؟ کتنے میں بن جاتے آٹھ دس سکول، چار پانچ کالج، دو تین ہسپتال؟ اس کا سوال کیوں نہیں پوچھتے ہمارے بھائی؟
میں یہاں کے سرداروں ،نوابوں ، وڈیروں اور جو طبقہ حکمران رہا ہے سب کو بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ دار گردانتا ہوں ۔

کوئی فرق نہیں۔ مسائل بلوچستان کے بھی وہی ہیں جو باقی پاکستان کے۔ بات صرف یہ ہے کہ سردار ذمہ داری اپنے کاندھوں سے اُتار کر پاکستان کے سر منڈھ دینا چاہتے ہیں‌اور کوئی پلٹ کر ان سے سوال کرنے والا نہیں کہ پھر اس کا کام تمام۔
شاید اس سوال کا جواب بھی آپ کو اوپر مل گیا ہوگا۔
 

زین

لائبریرین
صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس کی تھی ، مجھے ان کی پریس کانفرنس کے کچھ اعداد شمار یاد ہے ۔ انہوں‌نے بتایا تھا کہ صوبے میں چودہ سو کے قریب ایسے پرائمری سکول ہیں جہاں‌بچے درختوں کے سائے میں‌پڑھتے ہیں۔
ایک حیرت انگیز بات یہ بھی بتائی کہ پانچ ہزار کے قریب ایسے سکول ہیں جہاں ایک استاد پڑھاتا ہے ۔ اور ایک ہزار ایسے سکول بتائیں جہاں طالب علموں کی تعداد کے تناسب سے اساتذہ نہیں ۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/07/080729_ghost_schools.shtml
 

عسکری

معطل
نوٹ چھاپ فیکٹری اگر بلوچستان میں لگا دی جائے تو کم از کم تنخواہوں‌کا مسئلہ تو حل ہو جائے گا۔

مشورہ تو ٹھیک ہے پر اگر نوٹ چھاپ چھاپ کر لوگ سارے امیر ہو گئے تو بلوچستان میں چھوٹے کام کرنے والے پھر سندھ پنجاب سے بھیجنے پڑیں گے:rollingonthefloor:
 

خرم

محفلین
زین وفاق کو یقیناَ‌جو بلوچستان کے واجبات بقایا ہیں‌وہ ادا کرنا چاہئیں۔ لیکن اس مسئلہ کے لئے تمام پاکستان کو جوابدہ گرداننا یقیناَ ناانصافی ہے۔ آپ کسی بھی پاکستانی سے پوچھئے، ہر کوئی یہ کہے گا کہ یہ رقم ملنی چاہئے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ بلوچستان میں سکول نہ بنائے جائیں۔ اگر سرکاری یونیورسٹیوں کی بات ہو تو باقی پاکستان میں‌گزشتہ بیس برس میں کتنی یونیورسٹیاں بنی ہیں وہ بھی آپ جانتے ہی ہوں گے۔ یقیناَ بلوچستان کا حق اسے ملنا چاہئے، لیکن کیوں نہیں مانگتے بآواز بلند یہ حق بلوچستان کے اربابان اختیار؟ ٹی وی پر آئیں، اخباروں میں کہیں، ضرور عوام ان کی حمایت کرے گی۔ لیکن جب ان باتوں کو وہ عوام تک پہنچائے بغیر اپنے مقاصد کے لئے "آزادی" کی بات کریں گے تو پھر بات کیسے بنے گی؟ آج بلوچ حکومت سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی آسامیوں کے لئے اشتہار دے، ایک ہفتے میں درخواستوں کی لائن لگ جائے پنجاب سے لیکن اگر وہاں لوگ کہیں‌گے کہ پنجابیوں کو مار دو تو پھر کون جائےگا اُدھر؟ آپ یہ تو مانیں کہ جو بھی بلوچستان میں کوئی بھی نوکری کرنے جائے گا، قربانی دے گا۔ لیکن اسے اس کا کچھ صلہ تو ملے۔ اب ایک بندہ وہاں‌جائے اور وہاں جان کا خطرہ، مال کا خطرہ، عزت کا خطرہ ہر وقت ہو تو پھر کون جائے گا وہاں؟ ابھی چند برس پہلے تک تو بلوچستان بی ایریا تھا۔ ایسے میں کون سرکار کی بات سُنے؟
مسائل ہیں۔ یقیناَ ہیں لیکن انہیں حل کرنے کے لئے متحد ہو کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے نا کہ فرد فرد ہو کر۔ اس طرح حالات مزید بگڑیں گے سنوریں گے نہیں۔
اور میں پسماندگی کوٹے کے حق میں نہیں۔ میرے خیال میں تو ایک پائلٹ پروگرام شروع کرنا چاہئے کہ اگلے بیس برس کے دوران بلوچستان کے تمام علاقوں میں تعلیم و صحت کی وہ تمام سہولیات مہیا ہوں جو پاکستان کے ایک اوسط علاقے میں موجود ہیں اور بلوچ عوام کے معیار زندگی کو باقی ملک کے برابر لایا جائے۔ یہ پسماندگی کے کوٹے شکست خوردہ ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی صوبہ یا طبقہ پسماندگی کا حقدار نہیں۔ ہم سب کو ایک سے مواقع ملنے چاہئے یہ پسماندگی وغیرہ کے لالی پاپ ہمارے کام کے نہیں۔
 
Top