امن وسیم

محفلین
صفحہ نمبر 2 کے عنوانات

⭕ اسلام اور عقیدۂ اِحیا

اسلامی عقیدۂ اِحیا کے مطابق چار عالم ( نفوس، دنیا، برزخ، حشر )

⭕ عالم نفوس

⭕ عالم دنیا ( عالم دنیا کے چار اجزاء : مادی زندگی، روحانی زندگی، مادی موت، روحانی موت )

⭕ مادی زندگی
⭕ روحانی زندگی
⭕ مادی موت
⭕ روحانی موت

⭕ عالم برزخ
⭕ عالم برزخ میں تین طرح کے لوگ

عالم حشر

⭕ عالم حشر
⭕ قیامت
⭕ قیامت کی ہولناکیاں
⭕ نئی دنیا
⭕ نیا جسم

⭕ حشر
⭕ عدالت
⭕ پیشی
 

امن وسیم

محفلین
اسلام اور عقیدۂ احیا

دین اسلام موت اور اس کے بعد کی زندگی کے بارے میں بڑی تفصیل سے بات کرتا ہے۔ احیا چونکہ موت ہی سے متعلق ایک مسئلہ ہے، اس لیے اس کو بھی نہایت وضاحت کے ساتھ اس نے بیان کیا اور اس کے تمام مرحلوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اسلام کے بنیادی ماخذ، قرآن میں اس کی جزئیات تک کو ذکر کرنے کا اس قدر اہتمام ہے کہ اس کے بارے میں کوئی سوال یا اِبہام باقی رہ جائے، یہ ممکن نہیں ہے، حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ساری زندگی اسی کی منادی کی اور اس کو مخاطبین کے فکر اور ان کے عمل کا حصہ بنا دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ نبی کو نبی (خبر دینے والا) کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں کو آخرت اور اس کے احوال کی خبر دیتا ہے۔ غرض یہ کہ اگر کہا جائے کہ احیا کا عقیدہ اسلام کی سب تعلیمات کا اصل ہدف اور اس کے تمام احکامات کا مرکزی نقطہ ہے تو ایسا کہنا بالکل بھی بے جا نہیں ہے۔ سو اس عقیدے کی اسلام میں یہ مرکزیت ہے جو تقاضا کرتی ہے کہ ہم بھی اس کو ذرا تفصیل سے بیان کریں۔ زیر نظر مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ اس کے ہر ہر پہلو کو نمایاں کریں اور تفہیم مدعا کے لیے اس کے احوال کی زمانی ترتیب کو بھی ملحوظ رکھیں اور اس بات کا بھی خصوصی طور پر خیال رکھیں کہ اس کے بیان میں انھی دلائل کا سہارا لیں جن پر سنی سنائی یا گھڑی ہوئی بات کی کوئی پھبتی چست نہ کی جا سکے ۔
قرآن مجید کی روشنی میں دیکھا جائے تو زندگی اور موت کے سلسلے کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: عالَم نفوس، عالم دنیا، عالم برزخ اور عالم حشر۔ ذیل کی آیت ان چاروں ادوار کو بہ خوبی بیان کر رہی ہے :

کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ. (البقرہ۲: ۲۸)
’’لوگو، (قیامت کا انکار کرکے) تم اللہ کے منکر کس طرح ہوتے ہو، دراں حالیکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمھیں زندگی عطا فرمائی، پھر وہی مارتا ہے، اس کے بعد زندہ بھی وہی کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘


( مذکورہ آیت یہ بات بھی بیان کر رہی ہے کہ موت و حیات کے اس سفر سے پہلے انسانی ذات مجرد حالت میں ہوتی ہے، پھر اسے جسم کا ایک مرکب دیا جاتا ہے، سفر کے اختتام پر وہ مرکب اس سے چھین لیا جاتا اور پھر نئے سفر کے لیے نئی سواری کا انتظام کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اس سفر کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا ہر راستہ آگے کو جانے کے لیے بنا ہے، چنانچہ روحوں کا دنیا میں واپس آنا، زندوں کو ڈرانا اور کچھ لے دے کر راضی ہو جانا، اسلام کے نزدیک باطلِ محض ہے )
________
 

امن وسیم

محفلین
۱۔ عالم نفوس

یہ وہ دنیا ہے جس میں انسان کی ذات مادی وجود پا لینے سے پہلے مجرد حالت میں ، یعنی جسم کے بغیر رکھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں اس کے لیے ’موت‘ کا لفظ لایا گیا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم سے لے کر قیامت تک جتنے لوگوں کو پیدا ہونا تھا، ان کی روحوں کو ایک ہی مرتبہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ (الاعراف ۷: ۱۷۲) اب ہوتا صرف یہ ہے کہ جب کسی کا دنیا میں آنا مقدّر ہو، اس وقت اس کی روح کو دنیا میں تیار ہو جانے والے مادی جسم میں پھونک دیا جاتا ہے (المومنون ۲۳: ۱۴) گویا روحیں اُس دنیا میں بس قطار میں لگی ہوئی ہیں اور اِس دنیا میں آنے کی منتظر ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
۲۔ عالم دنیا

اس عالم سے مراد وہ دنیا ہے جس میں ہم اس وقت رہ رہے اور اپنے حواس سے اس کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہاں کچھ عرصہ رہنے اور پھر اگلی دنیا میں چلے جانے کا ایک مسلسل عمل جو ہم دیکھ رہے ہیں، عرف عام میں اس کے لیے زندگی اور موت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے جو زندگی ہے، وہ اپنی حقیقت میں مادی بھی ہوتی ہے اور روحانی بھی، اور اسی طرح موت کا معاملہ ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
مادی زندگی

ادیان اصل میں مابعدالطبیعیاتی اساس رکھتے ہیں، اس لیے مادی زندگی کیا ہے اور اس کی مادی تعبیرات کیا ہیں، بالعموم وہ ان کے بیان میں گریز کرتے ہیں۔ تاہم دین ہی کے تقاضوں کے تحت بیان ہوئی تفصیلات میں ضمنی طور پر ان کے بارے میں کچھ اشارے مل جاتے ہیں۔ قرآن میں یہی ہواہے۔ اس کے مطابق نطفۂ انسانی کے رحم مادر میں قرار پا جانے سے زندگی کا مادی پہلو شروع ہوتا ہے ۔ بعد ازاں لوتھڑے، بوٹیوں، ہڈیوں اور گوشت پوست کے مراحل گزرتے ہیں اور اس طرح حیوانی وجود کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ جیساکہ ارشادہواہے :

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا الْنُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا. (المومنون ۲۳: ۱۲۔۱۴)
’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اسے ایک محفوظ مستقر میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی ،پھر اس لوتھڑے کو بوٹی بنایا، پھر اس بوٹی میں ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنا دیا۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
روحانی زندگی

انسان کا مادی وجود جب مذکورہ بالا تمام مرحلوں سے گزر جاتا ہے تو اس میں اتنی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ انسانی شخصیت کا، جو کہ ایک غیر مادی حقیقت ہے ، تحمل کر سکے۔ چنانچہ فرمایاہے:

ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ.(المومنون۲۳: ۱۴)
’’پھر اس کو بالکل ہی مختلف مخلوق کی شکل میں مشکّل کر دیا۔ پس بڑا ہی با برکت ہے اللہ ، بہترین پیدا کرنے والا۔‘‘


آیت میں ’ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ‘ کے الفاظ اصل میں زندگی کی غیر طبعی جہت متعین کر رہے ہیں ، جو نتیجہ ہوتی ہے انسانی جسم میں اُس روح کے پھونک دیے جانے کا کہ جس کا ذکر خدا نے اپنی طرف نسبت دیتے ہوئے ان الفاظ میں کیا ہے:

فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ.(الحجر ۱۵: ۲۹)
’’سو جب میں اس کو پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو جانا۔‘‘


ان آیتوں سے بہ خوبی واضح ہے کہ یہ روح یزدانی اُس طبعی اور مادی روح سے یک سر مختلف ہے جو صرف اور صرف مادی زندگی کی ضامن ہوتی ہے۔ اصل میں یہی روح ہے کہ جس کے پھونک دیے جانے سے ایک جان دار انسان ہو جاتا اور یہی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ خدا کی شریعت کا مکلف ٹھیرتا ہے۔ اور اگر یہ نہ ہو تو وہ اپنی حیوانی حیثیت میں چاہے زندہ ہو، مگر مردوں میں سے گنا جاتا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
مادی موت

اس کے بعد زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وہی انسان جس نے ایک ناتواں انکھوے کے مانند آنکھ کھولی تھی، وہ وقت آتا ہے جب طاقت کا جوبن اور عقل کی اُٹھان اس سے سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ اس کی نگاہ پاتال کی گہرائیوں میں اتر جاتی اور ہر گام آکاش کی پہنائیوں میں راہ پانے لگتا ہے۔ وہ جس طرف جانا چاہتا ہے، دھرتی اپنا سینہ چاک کیے اس کو راستہ دیتی اور ہوائیں اسے اپنے دوش پر لیے ہر سو اڑتی پھرتی ہیں۔ فلک بوس پہاڑ اس کے عزم اور حوصلے کے سامنے جھک جھک جاتے تو بحر بے کنار محض ایک کوزے کے مانند ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ قدرت کا قانون ہے کہ بحر و بر کا فاتح یہ خاکی پتلا، انتہاؤں کو چھو لینے کے بعد مائل بہ زوال ہونے لگتا ہے۔ اس کے حوصلے پست ہو جاتے، اس کی ہمت جواب دے جاتی اور اس کی ہر امنگ بے ترنگ رہ جاتی ہے۔ اور آخر کار وہ مقام آتا ہے جب موت کے سائے اس پر چھانے لگتے اور اس کی ہول ناکیاں اس کے دامن سے لپٹ کر رہ جاتی ہیں۔ قرآن کااعلان ہے:

کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ.(اٰل عمرٰن ۳: ۱۸۵)
’’ہرجان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘


انسان ویسے تو جسم اور جان اور ایک شخصیت سے عبارت ہے، مگر ان تینوں میں سے موت کے اترنے کی اصل جگہ اس کا جسم ہے۔موت اترنے کا یہ عمل جب شروع ہوتا ہے تو اس کے آخری اثر کے طور پر انسان جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ گویا جسم کیا معطل ہوتا ہے جان بھی روٹھ جاتی ہے۔ اب وہ لاکھ چاہے کہ کسی طرح موت سے کنارہ کش ہو رہے ، مگر اس کو زندوں کا ساتھ چھوڑنا اور آخرکار مردوں کے ہمسایہ میں جانا ہی پڑتا ہے، حالاں کہ موت کے وقت سب انصار و اعوان اس کے آس پاس جمع ہوتے اور اس کو بچانے کے تمام وسائل بھی مہیا کرتے ہیں، مگر یہ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ سر توڑ کوششوں کے باوجود اور سب کی نگاہوں کے بالکل سامنے وہ موت کے چنگل میں جا پھنستا ہے۔ کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ موت کو شکست دے اور اس کے ظالم جبڑوں سے اس کو چھڑا لے جا سکے۔ یہ حد درجہ بے بسی اصل میں اس بات کی واضح دلیل ہوتی ہے کہ موت دینے کے اس خدائی فیصلے میں وہ سراسر محکوم ہے اور مجبور محض ہے:

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ، وَاَنْتُمْ حِیْنَءِذٍ تَنْظُرُوْنَ، وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ، فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ، تَرْجِعُوْنَھَآاِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. (الواقعہ ۵۶: ۸۳۔۸۷)
’’(اگر تمھارا یہ گمان ہے کہ تم کسی کے محکوم نہیں) تو کیوں نہیں اس وقت کہ جب جان حلق میں پہنچتی ہے، اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم جان کنی میں مبتلا اس شخص سے تمھاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں، لیکن تم دیکھ نہیں پاتے، اگر تم غیر محکوم ہو تو کیوں نہیں اس جان کو لوٹا لیتے، اگر تم سچے ہو۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
روحانی موت

انسان پر جب موت وارد ہو جاتی اور اس کے نتیجے میں جسم اور جان کا رشتہ ٹوٹ رہا ہوتا ہے تو اسی دوران میں کسی وقت اس کی روح بھی داغ مفارقت دے جاتی اور فرشتوں کے ہاتھ جا لگتی ہے۔ یہ روح یزدانی جس کو نفس، شخصیت، ہستی، ذات یا پھر کچھ بھی کہہ لیں، اس کا جسم میں داخل ہو جانا جس طرح انسان کی روحانی زندگی کی دلیل تھا ، اسی طرح اس کا جسم سے نکل جانا اس کی روحانی موت کی دلیل ہو جاتا ہے:

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآءِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ. (الانعام ۶: ۹۳)
’’اور کبھی تم دیکھتے ، جب یہ ظالم موت کی بے ہوشی میں ہوں گے اور فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے مطالبہ کر رہے ہوں گے کہ لاؤ، اپنی جانیں ہمارے حوالے کر دو۔‘‘


فرشتے نفس انسانی کو اس وقت نکالتے ہیں جب کوئی حالت نزع میں ہوتا ہے ، یہ بات تو واضح ہے ، اس کے ساتھ ضمنی ، مگرموضوع سے متعلق مزید کچھ باتیں بھی اس آیت سے سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر فرشتوں کا ’اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ کہنا کہ اپنا نفس ہمارے حوالے کر دو، ظاہر ہے اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے جب ہم کچھ باتوں کو تسلیم کریں:

پہلی یہ کہ انسانی جان اس کے نفس سے علیحدہ شے ہے، اسی لیے تو نفس کے نکالنے میں وہ فرشتوں کی مخاطَب ہے۔ دوسرے یہ کہ نفس کا جسم میں داخل ہونا اور نکلنا، مادی موت اور زندگی سے متصل ضرور ہوتا ہے، مگر یہ انسان کے جینے اور مرنے کی دلیل نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ کہ نفس ہی دین کا اصل مخاطب ہے کہ جس وقت یہ جسم و جان سے رشتہ توڑنے جاتا ہے تو ساتھ ہی امتحان کا دورانیہ ختم اور غیب کے پردے اٹھنے لگتے ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
۳۔ عالم برزخ کا تعارف

موت کے بعد کیا معاملہ ہوتا ہے؟ قرآن کی رو سے ایسا نہیں ہے کہ انسان مر کے مٹی ہو جاتا اور قصہ تمام ہو جاتا ہو، بلکہ اس کو اب ایک نئے سفر پر جانا ہوتا ہے کہ جس کی ہر راہ اسے رب العٰلمین کی طرف لیے جاتی ہے:

کَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ، وَ قِیْلَ مَنْ رَاقٍ، وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ، اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَءِذِنِ الْمَسَاقُ. (القیٰمہ ۷۵: ۲۶۔۳۰)
’’(نہیں، تم اس کو نہیں جھٹلا سکتے)، ہر گز نہیں، اُس دن، جب جان ہنسلی میں آپھنسے گی اور کہا جائے گا کہ اب کون ہے جھاڑنے والا؟ اور وہ (مرنے والا) سمجھ لے گا کہ اب چل چلاؤ کا وقت ہوا، اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے گی، وہ دن تیرے رب کی طرف جانے کا دن ہو گا۔‘‘


اس سفر میں روح پر کیا گزرتی ہے؟ ہم وضاحت سے بیان کر چکے ہیں کہ عقیدۂ احیا کے مطابق یوں نہیں ہوتا کہ یہ روح خدا سے جا ملے یا گھاس پھوس اور حیوان کے جسم کو اپنا مسکن بنا لے، بلکہ اس کو اُس وقت تک کے لیے ایک خاص دنیا میں جگہ دی جاتی ہے، جب تک سب مردوں کی زندگی اور ان کی جزا و سزا کا مرحلہ نہیں آ جاتا۔ اسلامی اصطلاح میں اس عالم کو جس میں مردے اکٹھے کیے جاتے ہیں،’ برزخ‘ کہا جاتا ہے اور یہ موت اور زندگی کے سلسلے کا تیسرا عالم ہے۔
یہودیت اور مسیحیت کی بیان کردہ Sheol اور یونانیوں کے ہاں پائی جانے والی Hades کی اصطلاحات، عالم برزخ کا تصور یہ دیتی ہیں کہ یہ پاتال میں قائم کوئی دنیاہے۔ لیکن قرآن مجید نے ہمارے لیے برزخ کے مقام کا تعین کیا اور نہ اس کی تفصیلات بیان کی ہیں، اس کی وجہ نہایت معقول ہے۔

اول تو اس مقام کا تعین کیا جائے، اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیونکہ دین میں اصل مقصود برزخی زندگی کا شعور دینا ہے نہ کہ اس کے جغرافیے اور محل وقوع کی تفصیلات کو بیان کرنا۔ دوسرے یہ کہ برزخ ایک ایسا عالم ہے کہ جس کے اصول ہماری دنیا کے اصولوں سے یک سر مختلف ہیں۔ اب اس عالم کی تفصیلات بیان کرنے سے کیا فائدہ کہ جس کی حقیقت کو ہم پا سکیں اور نہ کچھ اس کا ادراک ہی کر سکیں۔
تاہم، ’برزخ‘ کا لفظ جو فارسی لفظ ’پردہ ‘ کا معرّب ہے، ہمیں یہ ضرور بتاتا ہے کہ یہ دنیا کہیں بھی پائی جائے، بہرحال، ہم سے اوٹ میں ہے۔نیز یہ بھی اس لفظ کے مفہوم ہی کا لحاظ ہے کہ قرآن نے اُس دنیا کو ایک روک قرار دیا ہے جو مردوں کو ہماری اِس دنیا میں واپس نہیں آنے دیتی۔ بیان ہوا ہے کہ مرنے کے بعد جب کچھ لوگ تمنا کریں گے کہ اس دنیا میں لوٹ آئیں تو ان کو دوٹوک انداز میں جواب دیا جائے گا:

کَلَّا اِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَآءِلُھَا، وَمِنْ وَّرَآءِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ.(المومنون ۲۳: ۱۰۰)
’’ہرگز نہیں، (یہ نہیں ہوسکتا) یہ تو ایک (حسرت بھرا) کلمہ ہے جسے وہ کہے گا، وگرنہ ان کے آگے ایک پردہ ہے اس دن تک کے لیے، جب وہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘

آیت میں ’اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ‘ کے الفاظ واضح طور پر اشارہ کر رہے ہیں کہ مردوں کو برزخ میں جمع کرنے کا عمل اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک سب مردوں کو اٹھا کر کھڑا نہیں کر دیا جاتا۔ ہونے کو تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ جس کسی کو موت آن لیتی، اس کی عدالت فوراً لگا دی جاتی، عملوں کا ناپ تول ہوتا اور اس کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ سنا دیا جاتا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور یہ ساری کار روائی آخر وقت تک کے لیے مؤخر کر دی گئی، کیونکہ اس طرح ، جیسا کہ ہم نے عقیدۂ تناسخ کا رد کرتے ہوئے بیان کیا، بہت سے وہ عمل جو موت کے بعد بھی اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں ، انھیں مقدمے کی کارروائی میں زیر بحث لانے کی کوئی صورت نہ ہوتی۔ چنانچہ پروردگار عالم کی صفت عدل اور اس کی بے پایاں رحمت کا بدیہی تقاضا ہوا کہ لوگوں کے فیصلوں کو اس وقت تک مؤخر کر دیا جائے جب تک مقدمے کا ہر فریق اپنے اپنے عمل اور اس کے اثرات و نتائج کے ساتھ وہاں حاضری کے قابل نہ ہو جائے ۔
 

امن وسیم

محفلین
عالم برزخ میں تین طرح کے لوگ

عالم برزخ میں لوگوں کے ساتھ تین طرح سے معاملہ کیا جائے گا:

ایک وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں نیکی بھی کرتے رہے اور بدی میں بھی ملوث رہے۔ نیکی اور بدی کے اس اختلاط کی وجہ سے ان کا معاملہ ایسا نہیں ہو گا کہ ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا جا سکے۔ ضروری ہو گا کہ اس طرح کے لوگوں کے لیے ترازو کھڑے کیے جائیں اور ان کا باقاعدہ حساب ہو۔ چنانچہ ان کو حساب کے وقت، یعنی قیامت تک کے لیے بس سلا دیا جائے گا۔

دوسرے وہ ہوں گے جنھوں نے خدا سے اپنا تعلق صحیح طور پر قائم کیے رکھا، حتیٰ کہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے وہ آخری حد تک گئے ہوں گے۔ ان کے معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہو گا کہ ان کا حساب پوچھنے اور ان کی نیکیوں اور بدیوں کو تولنے کی ضرورت ہو، چنانچہ ان کو ایک طرح کا ثواب دینے کا عمل برزخ ہی میں شروع کر دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ساتھی جنھوں نے خدا کے ساتھ باندھے ہوئے عہد وفاداری کو خوب نبھایا اور اس کی خاطر اپنی جان تک کی پروا نہ کی، قرآن نے ان کی برزخی زندگی کی تصویر کچھ یوں کھینچی ہے:

وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا، بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ. (اٰل عمرٰن ۳: ۱۶۹)
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے، انھیں ہرگز مردہ خیال نہ کرو۔ (وہ مردہ نہیں)، بلکہ اپنے پروردگار کے حضور زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے۔‘‘


تیسرے وہ لوگ ہوں گے جن کی خدا سے بغاوت ، اس کے سامنے تکبر اور اس کے بتائے ہوئے حدود سے سرکشی اس قدر واضح ہو گی کہ ضروری نہیں ہو گا کہ ان کا حساب کتاب لیا جائے، چنانچہ ان پر برزخ ہی میں ایک طرح کا عذاب شروع کر دیا جائے گا۔ جیسا کہ قرآن مجید نے فرعون اور اس کے ہم نواؤں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے :

وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ، اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا. (المومن ۴۰: ۴۵۔۴۶)
’’اور فرعون کے ساتھی بد ترین عذاب کے پھیرے میں آگئے، دوزخ کی آگ ہے جس پرصبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں۔‘‘


برزخ میں دی جانے والی زندگی کس نوعیت کی ہوگی؟ قرآن کا بیان ہے کہ یہ عالم نفوس ہی کی طرح ، یعنی جسم کے بغیر ایک طرح کی زندگی ہو گی۔ ( البقرہ ۲: ۲۸ ) اس میں ہماری روح ویسے ہی شعور اور احساس کی مالک ہو گی، جیسا شعور اور احساس ہمیں نیند اور خواب کی حالت میں ہوا کرتا ہے۔ نیز یہ حالت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک برزخ سے اگلا مرحلہ نہیں آ جاتا اور اس کے لیے صور نہیں پھونک دیا جاتا۔ برزخی حیات کے ان دونوں پہلوؤں کا بیان ذیل کی آیت میں اس طرح ہوا ہے:

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ھٰذَا.(یٰسٓ ۳۶: ۵۱۔۵۲)
’’اور جب صور پھونک دیا جائے گا تو وہ یکایک قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے، اور کہیں گے: ہائے ہماری بدبختی، یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اٹھالایا ہے۔‘‘

_____
 

امن وسیم

محفلین
۴۔ عالم حشر

عالم نفوس، دنیا اور برزخ، یہ تینوں اس لحاظ سے مشترک ہیں کہ یہ ایک ہی وقت میں موجود اور مائل بہ عمل ہیں۔ یعنی ایک ہی وقت میں کوئی شخص عالم نفوس میں موجود اور زندگی مل جانے کا منتظر ہے تو کوئی دنیا میں آ چکا اور اس زندگی کو جی رہا ہے اور کوئی وہ ہے جو اِن مراحل سے گزر کر برزخ میں جا براجمان ہوا ہے۔ لیکن دنیاے حشر ان تینوں سے اس لحاظ سے بالکل مختلف ہے کہ وہ آج کی نہیں، بلکہ کل کی بات ہے۔ نیز یہ امتحان ہے اور نہ اس سے متعلقہ کوئی امر، بلکہ صرف اور صرف امتحان کا نتیجہ سنا دینے کا ایک مرحلہ ہے۔ عالم حشر کی یہ خصوصیات ہیں جو تقاضا کرتی ہیں کہ اس کی ابتدا یوں ہو کہ سب سے پہلے یہاں برپا کیے گئے امتحانی نظام کی بساط لپیٹ دی جائے۔اس کے بعد لوگوں کو نئی زندگی دے کر اکٹھا کیا جائے۔ ان کی کار گزاری دیکھنے کے لیے وہاں عدالت قائم ہو اور پھر نیک کاروں کو جزا اور بدکاروں کو سزا سنا دی جائے۔ قرآن میں ان تمام مراحل کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ ہم ذیل میں ان کو ترتیب وار پیش کرتے ہیں:
 

امن وسیم

محفلین
قیامت

قرآن کی رو سے جینے اور مرنے اور پھر برزخ میں چلے جانے کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری نہ رہے گا۔ ایک دن آئے گا جب موت و حیات کا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچے گا، عالم برزخ منتہی ہو جائے گا، حتیٰ کہ ساری دنیا درہم برہم اور اس کا ہر نظم تلپٹ ہو کر رہ جائے گا۔ کائنات میں واقع ہونے والے اس عظیم حادثے کو دینی اصطلاح میں قیامت سے تعبیر کیا جاتاہے ۔
قیامت کا آغاز اس طرح ہو گا کہ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوں گے اور خدا کی طرف سے مامور ایک فرشتہ اچانک صور پھونک دے گا۔ صور پھونک دیا جانا، اصل میں اس بات کا اعلان ہو گا کہ اب کائنات کے نظام میں تغیر کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس کی آواز کا پہلا اثر یہ ہو گا کہ لوگوں پر شدید گھبراہٹ اور ہول کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ اس کیفیت میں لوگ اپنی عزیز ترین چیزوں سے بے پروا ہو جائیں گے، مائیں اپنی ممتا کو بھول جائیں گی، حتیٰ کہ حاملہ عورتیں اپنے حمل تک ڈال دیں گی:

وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰہُ. (النمل ۲۷: ۸۷)
’’اور اس دن کا خیال کرو، جب صور پھونکا جائے گا اور وہ سب جو زمین اور آسمانوں میں ہیں، ہول کھا جائیں گے، سواے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا۔‘‘


یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ھُم بِسُکٰرٰی، وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ.(الحج ۲۲: ۲)
’’جس دن تم اُسے دیکھو گے، اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور لوگ تمھیں مدہوش نظر آئیں گے، دراں حالیکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہو گا۔‘‘


صور کے پھونک دیے جانے کے بعد زمین کی حالت کیا ہو گی، اس کے باسیوں پر کیا گزرے گی، اس کی خشکی اور تری میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی اور اس کے پہاڑ اور کھائیاں کیا کچھ جھیلیں گی ؛ قرآن نے ان سب کا تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے۔
بیان ہوا ہے کہ انسان کے پاؤں کے نیچے کی زمین میں بھونچال آ جائے گا۔ یہ عجیب اور بے ہنگم طریقے سے ہچکولے کھانے لگے گی۔ اس کا سکون ختم اور قرار متزلزل ہو جائے گا۔ اس کے اندر بہت سے راز پوشیدہ ہیں، بہت سی امانتیں اور خزانے مدفون ہیں، ایسا کھچاؤ پیدا ہو گا کہ یہ اس طرح کے تمام بوجھ نکال باہر کرے گی۔ اس کی بلندیوں کا حسن اور مناظر کی دل فریبی ختم ہو جائے گی ، حتیٰ کہ تمام نشیب و فراز اُس دن برابر ہو جائیں گے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ، اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ.(الحج ۲۲: ۱)
’’لوگو، اپنے پروردگار سے ڈرو۔ حقیت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی ہول ناک چیز ہے۔‘‘


وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ، وَاَلْقَتْ مَا فِیْھَا وَتَخَلَّتْ، وَاَذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْ. (الانشقاق ۸۴: ۳۔۵)
’’اور وہ دن، جب زمین تان دی جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے، اسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی اور اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرے گی، اور اسے یہی چاہیے۔ (وہ دن تمھارے پروردگار سے ملاقات کا دن ہو گا)۔‘‘


لَا تَرٰی فِیْھَا عِوَجًا وَّلاَ اَمْتًا. (طٰہٰ ۲۰: ۱۰۷)
’’تم اس میں کوئی کجی دیکھو گے اور نہ ہی کوئی بلندی۔‘‘


زمین کی مضبوطی اور اس میں گڑے ہوئے پہاڑوں کی عظمت کا بھرم، اُس دن چکنا چور ہو جائے گا۔ ان دونوں کو ایک ہی بار میں اٹھا کر پاش پا ش کر دیا جائے گا۔ یہ فلک بوس پہاڑ جو آج ثبات کے لیے ضرب المثل ہیں، اس قدر بے ثبات ہو جائیں گے کہ گردوغبار اور دھنکی ہوئی اُون کے مانند ہوا میں اڑتے ہوں گے:

وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً، فَیَوْمَءِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ. (الحاقہ ۶۹: ۱۴۔۱۵)
’’اور زمین اور پہاڑوں کو ایک ہی مرتبہ اٹھا کر پاش پاش کر دیاجائے گا، تو اس دن ہو کے رہنے والی (قیامت) ہو جائے گی۔‘‘


وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَا رَبِّیْ نَسْفًا، فَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا. (طٰہٰ ۲۰: ۱۰۵۔۱۰۶)
’’اور یہ لوگ تم سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، انھیں کہو کہ میرا رب ان کو گرد و غبار کی طرح اڑا دے گا اور زمین کو بالکل صفا چٹ چھوڑ دے گا۔‘‘


وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ. (القارعہ ۱۰۱: ۵)
’’اور (اس دن) پہاڑ دُھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
قیامت کی ہولناکیاں

قیامت کی ان گھڑیوں میں سمندروں پر جو گزرے گی، قرآن نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ساحلوں سے گلے ملنے، راز و نیاز کی باتیں کرنے اور وفاؤں کا دم بھرنے والی لہریں، جو روٹھ کر چلی بھی جائیں تو پھر لوٹ آتی ہیں، اُس دن اتنے جوش اور ہیجان میں ہوں گی کہ معلوم ہو گا کہ یہ کنارے کبھی بھی ان کے دوست نہیں رہے۔ یہ ان سے کیے ہوئے سارے قول و قرار بھول جائیں گی ۔ ان سے عہدِ وفا نبھانا تو درکنار، یہ ان کو پاؤں تلے روند کر رکھ دیں گی:

وَاِذَ الْبِحَارُ سُجِّرَتْ....(التکویر ۸۱: ۶)
’’اور جب سمندر ابل پڑیں گے...‘‘


وَاِذَ الْبِحَارُ فُجِّرَتْ.... (الانفطار ۸۲: ۳)
’’اورجب سمندر پھوٹ بہیں گے...‘‘


قیامت کی ان ہول ناکیوں کا جانوروں پر بھی اثر پڑے گا۔ وحشی جانور بالعموم اکٹھے نہیں ہوتے کہ ان کو اپنی ضرورت کے لیے ایک دوسرے کی گھات میں بیٹھنا اور بھڑ جانا ہوتا ہے۔ ہونے والے واقعات کا ان پر اس قدر اثر ہو گا کہ وہ ایک دوسرے سے بے پروا ہو کر ایک ہی جگہ اکٹھے ہو جائیں گے:

وَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ.... (التکویر ۸۱: ۵)
’’اور جب وحشی جانور (اپنی سب دشمنی بھول کر، ایک ہی جگہ) اکٹھے ہو جائیں گے... (اس وقت ہر کوئی جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیاہے)۔‘‘


اِدھر زمین اور اس کی مخلوقات پر یہ سب بیت رہا ہو گا اور اُدھر آسمان اور اس کے متعلقات بھی قیامت کی زد میں ہوں گے۔ اِس نیلگوں چھت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ پھٹ جانے کے بعد اس طرح نظر آئے گی ، جیسے کھال کھینچ دیں تو نیچے سے سرخ گوشت نظر آنے لگتا ہے۔ انسان کی خدمت میں لگے ہوئے اجرام فلکی اور دیگر آرایشی قمقمے، اُس دن بے نور ہو جائیں گے۔ چاند اور سورج، آج اپنے اپنے دائروں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ اپنے مداروں کو چھوڑیں گے اور ایک دوسرے سے جا ملیں گے:

فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ. (الرحمٰن ۵۵: ۳۷)
’’پھر (کیابنے گی اس وقت) جب آسمان پھٹ جائے گا اور اتری ہوئی کھال کی طرح لال ہو جائے گا؟‘‘


اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ، وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ.... (التکویر ۸۱: ۱۔۲)
’’جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی، جب تارے ماند پڑ جائیں گے...‘‘


فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ، وَخَسَفَ الْقَمَرُ، وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَءِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ. (القیٰمہ ۷۵: ۷۔۱۰)
’’لیکن اس وقت، جب دیدے پتھرائیں گے، اور چاند گہنائے گا اور سورج اور چاند، دونوں اکٹھے کر دیے جائیں گے تو یہی انسان کہے گا: اب کہاں بھاگ کر جاؤں۔‘‘


قیامت کی اس ہلچل کے دوران میں کوئی وقت ہو گا جب تمام انسان اپنے اوسان کھو کر بے ہوش ہو جائیں گے۔ بلکہ زمین والوں کا ذکر ہی کیا ! آسمان کے باسی بھی اس دہشت سے اپنے ہواس کھو بیٹھیں گے۔ ہوش میں وہی رہے گا جس کے بارے میں خدا چاہے گا کہ وہ ہوش میں رہے:

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی اْلاَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَآءَ اللّٰہُ. (الزمر ۳۹: ۶۸)
’’اور صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں، سب بے ہوش ہر کر گر پڑیں گے، سواے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
نئی دنیا

قیامت برپا ہو جانے اور اس کے نتیجے میں یہاں کا سارا نظام درہم برہم ہو جانے کے بعد وہ وقت آئے گا جب ایک نئی دنیا بالکل نئے اصولوں کے ساتھ پیدا کر دی جائے گی۔ اس کی پیدایش میں ذرہ بھر بھی مشکل نہ ہو گی، بلکہ یہ سب اسی طرح ممکن ہو جائے گا، جس طرح پہلی مرتبہ ممکن ہوا تھا۔ اس کو بنانے کے لیے کسی کاری گر کی تلاش ہو گی نہ نیا مادہ چاہیے ہو گا، وہی پروردگار عالم کہ جس نے اس دنیا کو عدم سے وجود بخشا تھا، کائنات کی وسعتوں میں بکھرے ہوئے اسی مادے سے نئی دنیا کو تخلیق کر لے گا:

کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ، وَعْدًا عَلَیْنَا، اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ. (الانبیآء ۲۱: ۱۰۴)
’’جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی، اُسی طرح اِس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور ہم یہ کر کے رہیں گے۔‘‘

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ. (ابراہیم ۱۴: ۴۸)
’’اس دن کو یاد رکھو، جب یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔‘‘

جب نئے زمین اور آسمان تیار ہو جائیں گے تو آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے ہر انسان کو زندہ کر دیا جائے گا۔ اس کے لیے ایک مرتبہ پھر سے صور پھونکا جائے گا جس کی آواز سے سب مردے جی اٹھیں گے۔ وہ ایک دوسرے کو حیرانی سے تاکتے ہوں گے جس طرح کسی کو گہری نیند سے جگا دیا جائے تو وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں اور اس قدر منتشر اور پراگندہ ہوں گے، جیسے آسمان سے بارش ہو اور اچانک بہت سے پتنگے کہیں سے نکل آئیں:

ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ. (الزمر ۳۹: ۶۸)
’’پھر اس صور میں دوبارہ سے پھونکا جائے گا اور وہ یکایک اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘

یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ. (القارعہ ۱۰۱: ۴)
’’اس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
نیا جسم

عالم حشر میں دی جانے والی یہ زندگی پہلے ادوار میں دی جانے والی زندگی سے قدرے مختلف ہو گی۔ عالم نفوس اور برزخ کی زندگی سے اس طرح کہ اس میں روح مجرد نہیں، بلکہ ایک جسم کے ساتھ ہو گی۔ دنیوی حیات سے اس طرح کہ اس میں دیا جانے والا جسم اپنی خصوصیات میں بہت کچھ مختلف ہو گا۔ مثال کے طور پر:

۱۔ آج انسانی جسم کو جلایا جائے تو وہ اپنی اصل ساخت ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھتا ہے، لیکن وہاں جب بھی اس کو جلایا جائے گا یہ اپنی اصل ساخت پر پھر سے لوٹ آئے گا، جیسا کہ بیان ہوا ہے:

کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا. (النساء ۴: ۵۶)
’’اُن کی کھالیں جب پک جائیں گی، ہم ان کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے۔‘‘


۲۔ان اجسام کی صلاحیتیں اور قوتیں بہت بڑھی ہوئی ہوں گی۔ قوت باصرہ بہت دور تک دیکھ لینے میں آج کے اجسام کی طرح سائنسی آلات کی محتاج نہ ہو گی۔ ان کی آوازیں اور سماعتیں بھی ہماری آوازوں اور سماعتوں کی طرح اتنی زیادہ محدود نہ ہوں گی۔ لوگ درمیان میں بڑی دوریاں حائل ہونے کے باوجود جب چاہیں گے ایک دوسرے سے گفتگو کر لیا کریں گے۔ جنتی آپس میں بات چیت کر رہے ہوں گے کہ ان میں سے ایک شخص اپنے ساتھیوں سے کہے گا کہ ذرا جھانک کر دیکھو میرے اس ساتھی کا کیا حال ہوا جو قیامت کے برپاہونے کے بارے میں بہت متعجب ہوا کرتا تھا:

فَاطَّلَعَ فَرَاٰہُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ، قَالَ تَاللّٰہِ اِنْ کِدْتَّ لَتُرْدِیْنِ، وَلَوْ لَا نِعْمَۃُ رَبِّیْ لَکُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ. (الآّٰفّٰت ۳۷: ۵۵۔۵۷)
’’سو وہ جھانکے گا اور اس (شخص) کو جہنم کے بالکل بیچ میں دیکھے گا۔ وہ کہے گا: خدا کی قسم! تم نے تو مجھے تباہ ہی کر دیا تھا۔ اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں بھی یہاں پکڑ لیا گیا ہوتا۔‘‘


۳۔ آج صرف زبان ہے جو صلاحیتِ نطق رکھتی ہے، مگر ہمیں دیے جانے والے نئے جسموں کی یہ خصوصیت ہو گی کہ زبان کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ ، پاؤں، کان اور آنکھیں، بلکہ رواں رواں بول سکتا ہو گا:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِھِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ. (یٰسٓ ۳۶: ۶۵)
’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہر کر دیں گے اور ان کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں ۔‘‘


حَتّٰی اِذَا مَا جَآءُ وْھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاَبْصَارُھُمْ وَجُلُوْدُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. (حٰمٓ السجدہ ۴۱: ۲۰)
’’یہاں تک کہ جب وہ اس (جہنم) کے پاس حاضر ہو جائیں گے تو ان کے کان، اور ان کی آنکھیں، اور ان کے جسم کے رونگٹے ان پر ان باتوں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے رہے۔‘‘


ضروری نہیں ہے کہ یہ اعضا اشارے اور کنایے کے ساتھ اپنے مدعا سمجھائیں۔ وہ ایک نیا جہان ہو گا جس کے قوانین بالکل نئے اور جس کے اصول یہاں کے اصولوں سے یک سر مختلف ہوں گے۔اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ سب اسی طرح بات کریں، جس طرح آج یہ زبان بات کیا کرتی ہے۔صرف اس خدا کی قدرت سامنے رہنی چاہیے جس نے زبان کے لوتھڑے کو قوت گویائی دی ہے کہ وہی دوسرے اعضا کو بھی ناطق بنا دے گا۔بلکہ وہ عالم ہی نرالا ہو گا! انسان اور اس کے اعضا کا بولنا تو ایک طرف رہا، وہاں تو ہر چیز بول سکنے پر قادر ہو گی۔ جن جمادات کو ہم کسی درجے میں بھی ذی روح نہیں مانتے ، وہ بھی خدا کے حکم پر بولیں گے، حتیٰ کہ وہاں زمین کا بولنا بھی قرآن نے ذکر کیا ہے:

وَقَالُوْا لِجُلُوْدِھِمْ لِمَ شَھِدْتُّمْ عَلَیْنَا، قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ. (حٰمٓ السجدہ ۴۱: ۲۱)
’’اور وہ اپنے جسموں سے کہیں گے : تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ جواب دیں گے: ہمیں اسی اللہ نے گویا کر دیا جس نے ہرچیز کو گویا کیا۔‘‘


یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا، بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا. (الزلزال ۹۹: ۴۔۵)
’’اس دن تیرے پروردگار کے ایما سے وہ اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
حشر

وہ مسافر کہ جس کے سفر کی ابتدا معدومیت سے ہوئی تھی، جو وجود کی منزلیں طے کرتا ہوا وادئ موت میں جا پہنچا تھا، جس نے برزخ میں کچھ دیر کے لیے قیام کیا اور جس نے اب پھر سے وجود پا لیا تھا؛ وہ مسافر اب اپنی آخری منزل کی طرف رواں دواں ہو گا۔ اس آخری منزل کو قرآن مجید کی زبان میں حشر کہتے ہیں۔
اس وقت یہ نہیں ہو گا کہ لوگ پہلی زندگی کی طرح وہاں جینے کا سامان یا کسی نئے امتحان کی تیاری کریں گے، بلکہ یہ سب ان کی جزا اور سزا کے لیے ہوگا، چنانچہ سب اپنی اپنی عدالت کے لیے اپنے پروردگار کی طرف چل پڑیں گے:

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ.(یٰس ۳۶: ۵۱)
’’اور صور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل پڑیں گے۔ ‘‘
 

امن وسیم

محفلین
عدالت

پروردگار عالم کے حضور لوگوں کی پیشی کس طرح ہوگی، وہاں کا ماحول کیسا ہو گا، سماعت کس طرح کی جائے گی اور فیصلہ سنانے کا طریقہ اور اس کی بنیادیں کیا ہوں گی، یہ سب باتیں عدالت کے متعلق ہیں، ذیل میں ہم انھیں ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں:
 

امن وسیم

محفلین
پیشی

خدائی عدالت دنیا میں بھی کسی نہ کسی درجے میں لگی رہتی ہے ، مگراس کے فیصلے بالعموم، قوموں کے بارے میں ہوا کرتے ہیں۔ جو قوم علم اور اخلاق کھو بیٹھتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کے زوال کا حکم سنا دیتے ہیں اور اس طرح ’تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ‘ کے مصداق اقوام عالم کا عروج اور زوال ہوتا رہتا ہے۔ جہاں تک آخرت کی عدالت کا معاملہ ہے تو اس میں اقوام کے بجاے افراد کے فیصلے کیے جائیں گے۔ یعنی وہاں لوگ اپنی مذہبی حیثیت اور سیاسی قومیت کے لحاظ سے نہیں ، بلکہ انفرادی اور ذاتی حیثیت میں حاضر ہوں گے۔ البتہ، یہ ضرور ہو گا کہ ان کے شریف یا شریر رہنماؤں کو بھی ان کے ساتھ ہی بلا لیا جائے گا تاکہ نیک رہنماؤں کے لیے اس میں شرف اور تکریم ہو اور بدکردار لیڈروں کے لیے ان کے پیرووں کی طرف سے لعنت اور پھٹکار ہو:

وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا.(مریم ۱۹: ۹۵)
’’اور قیامت کے روز ان میں سے ہر ایک، اس کے حضور تنہا حاضر ہو گا۔‘‘

یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍم بِاِمَامِھِمْ.(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۱)
’’اس دن کو یاد رکھو جب ہم ہر گروہ کو اس کے رہنما سمیت بلائیں گے۔‘‘

کسی کی مجال نہ ہو گی کہ خدا کے ہرکارے کی آواز پر لبیک نہ کہے اور اس کے دربار میں جانے سے کترا جائے۔ جب آوازہ پڑے گا تو ہر کسی کو جائے ہی بنے گی۔ بلکہ اس کو نظر انداز کر دینا تو بہت دور کی بات ہے، وہاں تو سب لوگ، چاہے وہ خدا کو مانتے رہے یا اُس کے نافرمان اور انکاری رہے، اس طرح پیش ہوں گے کہ ان کی زبانوں پر اس کی حمد کے ترانے ہوں گے:

یَوْمَءِذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لاَعِوَجَ لَہٗ.(طٰہٰ ۲۰: ۱۰۸)
’’اس دن سب پکارنے والے کے پیچھے چل پڑیں گے۔ اس سے ذرا ادھر ادھر نہ ہو سکیں گے۔‘‘

یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ.(بنی اسرائیل ۱۷: ۵۲)
’’یاد رکھو، جس دن خدا تمھیں پکارے گا تو اس کی حمد کرتے ہوئے تم اس کے حکم کی تعمیل کرو گے۔ ‘‘
 

امن وسیم

محفلین
انسان کا چہرہ آج بھی اس کے اندر کی ساری کہانی سنا ڈالتا ہے، آخرت میں بھی اسی طرح ہو گا۔ جو لوگ اپنے انجام کے بارے میں پُرامید اور جو لوگ خوف زدہ ہوں گے ، سب محض دیکھے سے پہچانے جائیں گے اور ان سب کے اعمال ان کے چہروں سے جھلکتے ہوں گے۔ نیک عمل اپنی حقیقت میں سراسر روشنی ہیں، چنانچہ ان کے حاملین کے چہرے بھی روشن ہوں گے۔ برے عمل اپنی حقیقت میں خاک اور سیاہی ہیں، اس لیے یہی کچھ ان کے حاملین کے چہروں پر چھا رہا ہو گا۔ مزید یہ کہ جن لوگوں نے دین میں عزیمتوں کی تاریخ رقم کی ہو گی، ان کے چہرے ہنستے ہوئے اور جنھوں نے خدا کی نافرمانی میں مثالیں قائم کی ہوں گی، ان کے چہرے اترے ہوئے اور مرجھائے ہوئے ہوں گے:

وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ مُّسْفِرَۃٌ، ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ، وَّوُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَۃٌ، تَرْھَقُھَا قَتَرَۃٌ، اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ.(عبس ۸۰: ۳۸۔۴۲)
’’کتنے چہرے اُس دن روشن ہوں گے، ہنستے ہوئے، ہشاش بشاش، اور کتنے چہرے ہوں گے کہ ان پر اس دن خاک اڑتی ہو گی، سیاہی چھا رہی ہو گی۔ یہی منکر ، یہی نافرمان ہوں گے۔‘‘

مجرم پیشی کے لیے لائے جائیں گے تو ہر ایک کے ساتھ دو فرشتے ہوں گے۔ ایک پیچھے سے ہانک رہا ہو گا اور دوسرا گواہی دینے کے لیے اس کے ساتھ ہو گا۔ دنیا میں جن لوگوں کو خدا کے سامنے جھکنے کی دعوت دی جاتی اور وہ اس سے اِعراض کر جاتے، وہاں حکم ہو گا کہ وہ اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں، مگر وہ چاہنے کے باوجود ایسا نہ کر سکیں گے اور اِس طرح بھری عدالت میں ان کی فضیحت کا سامان ہو گا:

وَجَآءَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَھَا سَآءِقٌ وََّشَھِیْدٌ.(ق ۵۰: ۲۱)
’’ہر شخص حاضر ہو گیا ہے، اس طرح کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا۔‘‘

یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ، خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ، تَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ، وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَھُمْ سٰلِمُوْنَ.(القلم ۶۸: ۴۲۔۴۳)
’’یہ اُس دن کو یاد رکھیں، جب بڑی ہلچل پڑے گی اور یہ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں گے۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی، ان پر ذلت چھا رہی ہو گی۔ (یہ ظالم، اِن کی کمر تختہ ہو گئی)، یہ اُس وقت بھی سجدے کے لیے بلائے جاتے تھے ، جب یہ بھلے چنگے تھے۔‘‘
 
Top