فارسی شاعری بشنو از نے چون حکایت می کند - مولانا رومی

بشنو از نے چون حکایت می کند
از جدایی ها شکایت می کند
بانسری سے سن ! کیا بیان کرتی ہے درد وجدائی کی (کیا ) شکایت کرتی ہے

کز نیستان تا مرا ببریده اند
از نفیرم مرد و زن نالیده اند
کہ جب سے مجھے ہنسلی سے کاٹا ہے میرے نالہ سے مرد و عورت سب روتے ہیں

سینه خواهم شرحه شرحه از فراق
تا بگویم شرحِ درد اشتیاق
میں ایسا سینہ چاہتا ہوں جو جدائی سے پارہ پارہ ہو تا کہ میں عشق کے درد کی تفصیل سناؤں

هر کسی کو دور ماند از اصلِ خویش
بازجوید روزگار وصلِ خویش
جو اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے وہ اپنے وصل کا زمانہ تلاش کرتا ہے

من به هر جمعیتی نالاں شدم
جفت خوشحالان وبدحالاں شدم
میں ہر مجمع میں روئی خوش اوقات اور بداحواں لوگوں کے ساتھ رہی

هر کسی از ظنِ خود شد یارِمن
از دورنِ من نجست اسرارِ من
ہر شحص اپنے خیال کے مطابق میرا یار بنا اور میرے اندر سے میرے رازوں کی جستجو نہ گئی

سر من از ناله ی من دور نیست
لیک چشم و گوش را آں نور نیست
میرا راز میرے نالہ سے دور نہیں ہے لیکن آنکھ اور کان کے لیے وہ نور نہیں ہے

تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست
لیک کس را دید جاں دستور نیست
بدن روح سے اور روح بدن سے چھپی ہوئی نہیں ہے لیکن کسی کے لیے روح کو دیکھنے کا دستور نہیں ہے

آتش است این بانگِ نائے و نیست باد
هر که این آتش ندارد نیست باد
بانسری کی یہ آواز آگ ہے ہوا نہیں ہے جس میں یہ آگ نہو وہ نیست و نابود ہو

آتش عشقست کاندرِ نے فتاد
جوشش عشق است کاندر می فتاد
عشق کی آگ ہے جو بانسری میں لگی ہے عشق کا جوش ہے جو شراب میں آیا ہے

نے حریفِ هر که از یارے بُرید
پرده هایش پرده هائے ما درید
بانسری اس کے ساتھ ہے جو یار سے کٹا ہو اس کے راگوں میں نے ہمارے پردے پھاڑ دیئے

همچو نے زهرے و تریاقے که دید؟
همچو نی دمساز و مشتاقے که دید؟
بانسری جیسا زہر اور تریاق کس نے دیکھا ہے؟ بانسری جیسا ساتھی اور عاشق کس نے دیکھا ہے؟

نے حدیث راهِ پرخوں می کند
قصه های عشقِِ مجنوں می کند
بانسری خطرناک راستہ کی بات کرتی ہے مجنون کے عشق قصہ بیان کرتی ہے

محرم این هوش جز بیهوش نیست
مر زبان را مشتری جز گوش نیست
اس ہوش کا رازداں بیہوش کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے زبان کا خریدار کان جیسا کوئی نہیں ہے

در غم ماروزها بیگاه شد
روزها با سوزها همراه شد
ہمارے غم میں بہت سے دن ضائع ہوئے بہت سے دن سوزشوں کے ساتھ ختم ہوئے

روزها گر رفت گو رو باک نیست
تو بماں ای آنکه چون تو پاک نیست
دن اگر گزریں تو کہدو و گزریں پردا نہیں ہے اے وہ کے تجھ جیسا کوئی پاک نہیں ہے تو رہے!

هرکه جز ماهی ز آبش سیر شد
هرکه بی روزیست روزش دیر شد
جو مچھلی کے علاوہ ہے اس کے پانی سے سیر ہوا جو بے روزی ہے اس وقت ضائع ہوا

درنیابد حال پخته هیچ خام
پس سخن کوتاه باید والسلام
کوئی ناقص کامل کا حال نہیں معلوم کر سکتا پس بات مختصر چاہئے والسّلام

بند بگسل باش آزاد ای پسر
چند باشی بند سیم و بند زر
اے بیٹا ! قید کو توڑ آزاد ہو جا سونے چاندی کا قیدی کب تک رہیگاہ

گر بریزی بحر را در کوزه‌ای
چند گنجد قسمت یک روزه‌ای
اگر کو دریا کو ایک پیالے میں ڈالے کتنا آئے گاَ ایک دن کا حصہ

کوزه چشم حریصان پر نشد
تا صدف قانع نشد پر در نشد
حریضوں کی آنکھ کا پیالہ نہ بھرا جب تک سیپ نے قناعت نہ کی ہوئی سے نہ بھرا

هر که را جامه ز عشقے چاک شد
او ز حرص و عیب کُلی پاک شد
جس کا جامہ عشق کی وجہ سے چاک ہوا وہ حرض اور عیب سے بالکل پاک ہوا

شاد باش ای عشقِ خوش سودائے ما
ای طبیب جمله علتهائے ما
خوش رہ ہمارے اچھے جنون والے عشق اے ہماری تمام بیماریوں کے طبیب

ای دوائے نخوت و ناموس ما
ای تو افلاطون و جالینوس ما
اے ہمارے تکبر اور جھوٹی غیرت کے علاج، اے ہمارے افلاطون اور جالینوس، تو سدا خوش رہے

جسم خاک از عشق بر افلاک شد
کوه در رقص آمد و چالاک شد
خاکی جسم عشق کی وجہ سے آسمانوں پر پہنچا پہاڑ ناچنے لگا اور ہوشار ہو گیا

عشق جان طور آمد عاشقا
طور مست و خر موسی صعقا
اے عاشق! عشق طور کی جان بنا طور مست بنا اور موسی بیہوس ہو کر گرے

با لب دمساز خود گر جفتمے
همچو نی من گفتنیها گفتمے
اگر میں اپنے یار کے ہونٹ سے ملا ہوا ہوتا بانسری کی طرح کہنے کی باتیں کہتا

هر که او از هم زبانی شد جدا
بی زبان شد گرچه دارد صد نوا
جو شحص دوست سے جدا ہوا بے سہارا بنا خواہ سو سہارے رکھے

چونکه گل رفت و گلستاں درگذشت
نشنوی زان پس ز بلبل سر گذشت
جب پھول ختم ہوا اور باغ جاتا رہا اس کے بعد تو بُلبل کی سرگزشت نہ سنیگا

جمله معشوقست و عاشق پردۃ
زنده معشوقست و عاشق مردۃ
تمام کائنات معشوق ہے اور عاشق پردہ ہے معشوق زندہ ہے اور عاشق مردہ ہے

چون نباشد عشق را پروائے او
او چو مرغے ماند بی پروائے او
جب عشق کو اس سے پردہ نہ ہو وہ بے پرکے پرند کی طرح ہے اس پر افسوس ہے

من چگونه هوش دارم پیش و پس
چون نباشد نورِ یارم ہم نفس
میں کیا کہوں کہ میں آئے پیچھے کا ہوش رکھتا ہو جب میرے دوست کا نور کا ساتھی نہ ہو

عشق خواهد کین سخن بیرون بود
آینہ ات غماز نبود چون بود
عشق چاہتا ہے کہ یہ بات ظاہر ہو تیرا آئینہ غماز نہ ہو تو کیوں کر ہو

آئینات دانی چرا غمازِ نیست
زانکه زنگار از رخش ممتازِ نیست
تو جانتا ہے تیرا آئنہ غماز کیوں نہیں ہے ؟ اس لئے کہ زنگ اس کے چہرے سے علیحدہ نہیں ہے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قاضی سجّاد حُسین مرحوم نے اِن ابیات کا ترجمہ درست کیا ہے۔ فقط چند جگہوں پر کتابت کی غلطیاں در آئی ہیں۔ نظرِ ثانی فرما کر اُنہیں صحیح کر لیجیے۔
میری رائے ہے کہ اگر ایک بیت کے دونوں مصرعوں کے ترجموں کو جدا جدا سطر میں لکھا جائے تو سمجھنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔
 
آخری تدوین:
قاضی سجّاد حُسین مرحوم نے اِن ابیات کا ترجمہ درست کیا ہے۔ فقط چند جگہوں پر کتابت کی غلطیاں در آئی ہیں۔ نظرِ ثانی فرما کر اُنہیں صحیح کر لیجیے۔
میری رائے ہے کہ اگر ایک بیت کے دونوں مصرعوں کے ترجموں کو جدا جدا سطر میں لکھا جائے تو سمجھنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔
سر اب میں اس میں تدوین نہیں کر سکتا :) آئندہ اس کا حاص خیال ہو گا انشاء اللہ !
حافظ شیرازی کا دیوان مل کہاں سے مل سکتا ہے ؟
 
Top