بس میرا نام نہ آئے - وسعت اللہ خان

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: بی بی سی اردو ڈاٹ‌کام، 18 نومبر 2008

لیکن جب کوئی طاقتور تنظیم انہی اخبارات کا بائیکاٹ کرتی ہے، اخبارات کے بنڈل نذرِ آتش کرتی ہے یا کسی چینل کےصحافیوں پر تشدد کرتی ہے تو اس تنظیم کا نام تک متاثرہ اخبار یا چینل پر نہیں آتا۔صرف ایک تنظیم یا گروہ یا نامعلوم افراد جیسی مبہم اصطلاحات استعمال کرکے جراتِ اظہار کی لاج رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ان نامعلوم افراد کے ساتھ پسِ پردہ مذاکرات ہوتے ہیں اور درپردہ معافی تلافی بھی ہوتی ہے۔ناپسندیدہ صحافیوں کو ان نامعلوم تنظیموں، اداروں یا افراد کے دباؤ پر ادھر ادھر بھی کردیا جاتا ہے۔

کئی اخبارات اور چینلز کے لئے یہ معمول کی بات ہے کہ وہ خبر کے غلط یا بے بنیاد ثابت ہونے پر کسی قسم کی معذرت نہیں کرتے اور نہ ہی خبر واپس لینے یا اسکی تصیح کا تکلف کرتے ہیں۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی واقعہ میں مرنے یا زخمی ہونے والوں کی تعداد پر میڈیا کے بیشتر اداروں کا اتفاق ہوسکا ہو۔

حال ہی میں ایک چینل کے مذہبی پروگرام میں ایک فرقے کے لوگوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا۔جس کے بعد مختلف علاقوں میں کم ازکم تین لوگ قتل بھی ہوگئے۔لیکن یہ پروگرام بغیر کسی حرفِ پشیمانی کے آج بھی جاری ہے۔سوائے ایک آدھ اخبار کے کسی نے یہ معاملہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔

متعدد اخبارات و چینلز کسی بھی ویب سائٹ یا نشریاتی چینل سے مواد ، مضامین اور کالم لے اڑتے ہیں اور پھر انہیں بغیر حوالے کے اس طرح سے شائع یا نشر کرتے ہیں جیسے یہ خالصتاً ان کی کاوش ہو۔شاید سرقے، چوری اور اشاعتی حقوق کی پامالی کو بھی آزادی صحافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ان حالات میں جب تک میڈیا اپنے ہی پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہیں کرتا آزادی اظہار کی گنگا اسی طرح بہتی رہے گی۔

مزید پڑھیں۔۔
 

زین

لائبریرین
جناب وسعت اللہ خان نے بہت اہم مسئلہ اٹھایا ہے ۔
ملک بھر کی میڈیا پر تو صرف ایک دو اداروں کا ہی قبضہ ہے ۔
 
Top