مجید امجد "بس سٹینڈ پر" ۔ مجید امجد

فرخ منظور

لائبریرین
"بس سٹینڈ پر"
مجید امجد
"یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی"

"خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی!"

"خدا سے کیا گلہ، بھائی!
خدا تو خیر کس نے اس کا عکسِ نقشِ پا دیکھا
نہ دیکھا تو بھی دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا
مگر توبہ، مری توبہ، یہ انساں بھی تو آخر اِک تماشا ہے
یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا بڑے جتنوں سے سیکھا ہے
ابھی کل تک، جب اس کے ابروؤں تک مُوئے پیچاں تھے
ابھی کل تک، جب اس کے ہونٹ محرومِ زنخداں تھے
ردائے صدزماں اوڑھے، لرزتا، کانپتا، بیٹھا
ضمیرِ سنگ سے بس ایک چنگاری کا طالب تھا!"

"مگر اب تو یہ اُونچی ممٹیوں والے جلو خانوں میں بستا ہے
ہمارے ہی لبوں سے مُسکراہٹ چھین کر اب ہم پہ ہنستا ہے
خُدا اس کا ، خدائی اس کی، ہر شے اس کی، ہم کیا ہیں!
چمکتی موٹروں سے اڑنے والی دھول کا ناچیز ذرّہ ہیں"

"ہماری ہی طرح جو پائمالِ سطوتِ میری و شاہی ہیں
لکھوکھا، آبدیدہ، پا پیادہ، دل زدہ، واماندہ راہی ہیں
جنھیں نظروں سے گم ہوتے ہوئے رستوں کی غم پیما لکیروں میں
دکھائی دے رہی ہیں آنے والی منزلوں کی دھندلی تصویریں"

"ضرور اِک روز بدلے گا نظامِ قسمتِ آدم
بسے گی اک نئی دُنیا ، سجے گا اِک نیا عالم
شبستاں میں نئی شمعیں ، گلستاں میں نیا موسم"

"وہ رُت اے ہم نفس جانے کب آئے گی؟
وہ فصلِ دیررس جانے کب آئے گی
یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی"
مجید امجد
 
Top