بسم اللہ خوانی - از: جناب بدرالدین صاحب - 1903ء

کاشفی

محفلین
بسم اللہ خوانی
(از: جناب بدرالدین صاحب - 1903ء)
یوں تو تمام مسلمان اس رسم کو حسب مقدور ادا کرتے ہیں مگر ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اس تقریب کی غرض اور حقیقت سے واقف ہو کر اس کو انجام دیتے ہوں۔ جہاں تک دیکھا گیا ہے والدین محض ارمان نکالنے کی غرض سے بچوں کی بسم اللہ خوانی کیا کرتے ہیں جس سے اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ آج بچے کی بسم اللہ خوانی بڑی دھوم دھام سے کی اور کل کھیل کود شروع ہوا، تختی یا قاعدہ بالائے طاق رکھ دیا گیا ۔ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ بچے کی بسم اللہ کس غرض سے کی گئی او ر اُس کی کون سی ضروت لاحق ہوئی انہوں نے تو اس رسم کو ایک عام رواج اور خوشی منانے کا دن سمجھ لیا ہے۔ اگر اس تقریب کا یہی حال ہے تو مسلمانوں کے بچے کیونکر تعلیم یافتہ ہوسکتے ہیں۔

مسلمانوں کے بچے جو اکثر جاہل نظر آتے ہیں اس کی یہ ایک وجہ ہے ورنہ بعدبسم اللہ خوانی چار چار حروف بلاناغہ پڑھائے جائیں تو رفتہ رفتہ بچے اچھے خاصے تعلیم یافتہ ہوسکتے ہیں۔ بچوں کی بسم اللہ خوانی کی عمر قدرتاً اثر پذیر ہوا کرتی ہیں اور جو کچھ اُس وقت انکے ذہن نشین کیا جائے نقش ہوجاتا ہے۔

والدیں کے حقیقی ارمان بچوں کی بسم اللہ خوانی سے اُس وقت ہی نکل سکتے ہیں جبکہ بچہ تعلیم یافتہ ہو۔ اگر بسم اللہ خوانی کی بسم اللہ ہی غلط نکلی اور بچہ اَن پڑھ رہا تو یکے نقصان مایہ و دیگر شماتت ہمسایہ مضمون ہوگا۔ اسلئے کہ جاہل بچوں سے جو صدمے والدین کو پہنچتے رہتے ہیں اُس سے ہر فرد بشر واقف ہے۔

اگر والدین اس رسم کی اصل حقیقت کو مدنظر رکھ کر بسم اللہ خوانی کریں اور اُسی دن سے تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھنے میں کوئی دقیقہ فردگداشت نہ کریں تو آئیندہ اُنہیں حقیقی خوشی حاصل ہوگی اور ان کے حقیقی ارمان نکلیں گے اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے تمام بچے خواندہ نظر آئیں گے شاید ہی کوئی ایسا کم نصیب بچہ ہوگا جو جاہل کہلائے گا۔ حقیقت کو نظر اندا ز کیا جائے اور فقط پلاؤ اور بریانی ہی کو بسم اللہ خوانی سمجھی جائے تو ممکن نہیں کہ اُس سے کوئی فائدہ پہنچے اور والدین کو اس سے کچھ سرخروئی حاصل ہو۔ البتہ تھوڑی دیر کے لئے انہیں اپنی غلط فہمی سے مصنوعی خوشی حاصل ہوسکتی ہے مگر اُس کا خمیازہ آگے چل کر عمر بھر اُنہیں بھگتنا پڑتا ہے۔


BismillahKhuwani1.jpg

BismillahKhuwani2.jpg
 
Top