برطانیہ ملک ریاض کے19 کروڑ پاؤنڈز پاکستان کو دے گا

جاسم محمد

محفلین
آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ رئیل سٹیٹ سے جڑا ہوا کنسٹرکشن کا کاروبار 20 سے زائد انڈسٹریز کو پروان چڑھاتا ہے، جس میں سب سے زیادہ فائدہ سروسز انڈسٹری کو ہوتا ہے۔ سروسز انڈسٹری مطلب روزگار کمانے والے، آپ اسے جڑ سے کاٹ دیں گے تو سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ بیروزگاری بڑھے گی، اس کے ساتھ ساتھ 20 سے زائد وہ انڈسٹریز جو کنسٹرکشن سے متعلق ہیں یعنی تعمیراتی مٹیریل بناتی ہیں وہ بند ہو جائیں گی۔ حکومت کے اکھاڑ پچھاڑ اقدامات سے ہر طرف بے چینی، افراتفری اور بیروزگاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔اس لیے حکومت کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوں گے، وہ پہلے ہی معیشت جیسے نازک سیکٹر میں پینک پیدا کر چکی ہے۔ مزید اکھاڑ پچھاڑ سے سسٹم زمین بوس ہونے کا خطرہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت ملک ریاض کو پکڑنے کی بجائے اس کے ساتھ مل کر ۵۰ لاکھ گھر بنانے جا رہی ہے۔ یہی اس وقت کا نظریہ ضرورت ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
نہیں! حکومت بلکہ قوم ملک صاحب سے ہاتھ جوڑ کر عرض کرے: تسی لنگھ جاؤ، ساڈی خیر اے۔
جس کا جو کام ہے وہ وہی کر سکتا ہے۔ اپنے چینی بھائیوں سے کہیں پاکستان میں آکر منافع بخش صنعتیں لگائیں۔ اس کے لئے مطلوبہ سرمایہ کاری بڑی بڑی ریئل اسٹیٹ والے (فوجی فاؤنڈیشن) کریں۔ دیکھا دیکھی عام عوام بھی اپنا سرمایہ ریئل اسٹیٹ کی بجائے صنعتی ترقی میں لگائے گی۔ جس سے ملک کی برآمداد بڑھے گی اور معیشت بالآخر مستحکم ہو جائے گی۔
پاکستانی معیشت تمام تر اقدامات کے باوجود صرف اس لئے مستحکم نہیں ہو پاتی کیونکہ سارا سرمایہ ایسے منافع بخش کاروبار میں جھونک دیا جاتا ہے جس کا حاصل (رقبے، مکانات، محلات) ملک سے باہر بیچا نہیں جا سکتا :)
 

زیرک

محفلین
جس کا جو کام ہے وہ وہی کر سکتا ہے۔ اپنے چینی بھائیوں سے کہیں پاکستان میں آکر منافع بخش صنعتیں لگائیں۔ اس کے لئے مطلوبہ سرمایہ کاری بڑی بڑی ریئل اسٹیٹ والے (فوجی فاؤنڈیشن) کریں۔ دیکھا دیکھی عام عوام بھی اپنا سرمایہ ریئل اسٹیٹ کی بجائے صنعتی ترقی میں لگائے گی۔ جس سے ملک کی برآمداد بڑھے گی اور معیشت بالآخر مستحکم ہو جائے گی۔
پاکستانی معیشت تمام تر اقدامات کے باوجود صرف اس لئے مستحکم نہیں ہو پاتی کیونکہ سارا سرمایہ ایسے منافع بخش کاروبار میں جھونک دیا جاتا ہے جس کا حاصل (رقبے، مکانات، محلات) ملک سے باہر بیچا نہیں جا سکتا :)
جس پر فوجی کا لیبل لگاہو، اسے چھیڑنا ممکن نہیں یہی پاکستان کا اصل قانون ہیں، مقدس گائے کی مرضی سے چلیں گے تو آپ سادھ وگرنہ چور بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ ان سے کشمیر تو فتح نہیں ہوا، البتہ پاکستان ان کی مقبوضہ ریاست ضرور بن گیا ہے۔
 

زیرک

محفلین
پاکستانی قوانین کے مطابق باہر سے پیسا ملک میں لانا کوئی جرم نہیں ہے۔
ماضی میں یہ کام ہمارے مابدولت وزیراعظم بھی کر چکے ہیں، لیکن یہ ماضی کی بات ہے اب کچھ اور معاملہ ہے، اب لانے والوں پر بھی چیک ہے اور باہر لے جانے والوں کی بات اور ہے اگر تو آپ اصل حکمرانوں کے منظورِ نظر ہیں تو آپ کو کوئی مائی کا لعل نہیں پوچھ سکتا، وگرنہ پکڑ میں آنے کا پورا پورا انتظام موجود ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جس پر فوجی کا لیبل لگاہو، اسے چھیڑنا ممکن نہیں یہی پاکستان کا اصل قانون ہیں، مقدس گائے کی مرضی سے چلیں گے تو آپ سادھ وگرنہ چور بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ ان سے کشمیر تو فتح نہیں ہوا، البتہ پاکستان ان کی مقبوضہ ریاست ضرور بن گیا ہے۔
چھیڑنے کو کس نے کہا ہے؟ بھٹو نے ۲۲ طاقتور صنعتی خاندانوں کو چھیڑ کر کیا حاصل کر لیا؟ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جس جس کے پاس بھی سرمایہ وافر مقدار میں موجود ہے وہ اسے ریئل اسٹیٹ جیسے منافع بخش لیکر غیر ترقیاتی سیکٹر میں لگانے کی بجائے صنعتی سیکٹر میں لگائے۔ جس سے نہ صرف ملک معاشی جمود سے باہر نکل آئے گا بلکہ بنگلہ دیش کی طرح دن دگنی رات چگنی ترقی کرے گا۔
دنیا کے چوٹی کے ماہرین اقتصادیات بھی یہی کہہ رہے ہیں
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ یہ کہنا چاہتے ہیں صرف ریئل اسٹیٹ کا کاروبار اتنا منافع بخش نہ ہو کہ ملک کا سارا سرمایہ یہیں منتقل ہو جائے اور معیشت کے باقی اہم سیکٹررز مندی کا شکار رہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہی وجہ ہے کہ حکومت ملک ریاض کو پکڑنے کی بجائے اس کے ساتھ مل کر ۵۰ لاکھ گھر بنانے جا رہی ہے۔ یہی اس وقت کا نظریہ ضرورت ہے۔ :)
یوں انصاف کے جملہ تقاضے پورے ہوئے اور بے لاگ احتساب کی فراہمی کے عمل کے دوران کوئی مصلحت پیش نظر نہ رکھی گئی اور مفاہمتی پالیسی کو اپنانے سے دیدہ دانستہ گریز اختیار کیا گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یوں انصاف کے جملہ تقاضے پورے ہوئے اور بے لاگ احتساب کی فراہمی کے عمل کے دوران کوئی مصلحت پیش نظر نہ رکھی گئی اور مفاہمتی پالیسی کو اپنانے سے دیدہ دانستہ گریز اختیار کیا گیا۔
ملک ریاض کا احتساب کریں گے تو وہ ان طاقتور ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں، بیروکریٹس، سیاست دانوں کو پھنسائے گا جنہوں نے ماضی میں اس کرپٹ نظام سے فائدے اٹھائے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں پھر سارا نظام مارشل لا لگا کر الٹ دیا جائے گا۔ اگر آپ کو یہ سب منظورہے تو پھر بسم اللہ کریں۔ شروع کریں ملک ریاض کا بے لاگ احتساب :)
 

فرقان احمد

محفلین
ملک ریاض کا احتساب کریں گے تو وہ ان طاقتور ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں، بیروکریٹس، سیاست دانوں کو پھنسائے گا جنہوں نے ماضی میں اس کرپٹ نظام سے فائدے اٹھائے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں پھر سارا نظام مارشل لا لگا کر الٹ دیا جائے گا۔ اگر آپ کو یہ سب منظورہے تو پھر بسم اللہ کریں۔ شروع کریں ملک ریاض کا بے لاگ احتساب :)
جی ضرور!
 

زیرک

محفلین
ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جس جس کے پاس بھی سرمایہ وافر مقدار میں موجود ہے وہ اسے ریئل اسٹیٹ جیسے منافع بخش لیکر غیر ترقیاتی سیکٹر میں لگانے کی بجائے صنعتی سیکٹر میں لگائے۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ یہ کہنا چاہتے ہیں صرف ریئل اسٹیٹ کا کاروبار اتنا منافع بخش نہ ہو کہ ملک کا سارا سرمایہ یہیں منتقل ہو جائے اور معیشت کے باقی اہم سیکٹررز مندی کا شکار رہیں۔
٭دیکھیں حکومت صرف ترغیب دے سکتی ہے کہ کہاں سرمایہ کاری کریں کہ جس سے معیشت خاص کر مردہ انڈسٹریل سیکٹر اٹھ کھڑا ہو، لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں، ان کا سرمایہ لے کر کہیں اور لگانے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں ہے، یہ سرمایہ کار کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ کہاں سرمایہ کاری کرتا ہے۔
٭پاکستان کے سب سے منافع بخش ٹیکسٹائل سیکٹر کو لے لیں، جب بجلی ہی نہیں ملتی تو سرمایہ کار کیا کرے؟ اس نے دوسرے منافع بخش سیکٹر کا انتخاب کرنا ہے جو کہ رئیل اسٹیٹ ہے۔ کم از کم اس میں اس کا سرمایہ تو محفوظ رہتا ہے۔
٭رئیل اسٹیٹ الگ سیکٹر ہے اور ہاؤسنگ الگ، ہاؤسنگ سے 20 سے زائد انڈسٹریز کا پیٹ بھرتا ہے جو کہ سروسز سیکٹر یعنی روزگار فراہم کرنے کا سب سے بڑا اور تیز ذریعہ ہے۔آپ کا نظریہ یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اتنا منافع بخش نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے سرمایہ کاری کا ارتکاز ایک ہی جگہ نہ ہو، سوچ اچھی ہے مگر اس کے لیے اس سیکٹر کی موت ضروری نہیں ہونی چاہیے۔
٭آپ یہ بھول رہے ہیں کہ اس سیکٹر کو دو مقدس گائیں چلا رہی ہیں، فوج اور عرب شیخ، اس لیے اسے ختم کرنا ممکن نہیں، کوئی اور طریقہ ڈھونڈیں۔
٭باقی سیکٹرز کی اہمیت ہے لیکن ان کو بحال کرنے میں وقت لگے گا، اس لیے جو سیکٹر کچھ کر رہاہے اسے مت ختم کریں وگرنہ پاکستان میں سروسز سیکٹر سب سے زیادہ متاثر ہو گا، جب بیروزگاری بڑھتی ہے تو بھوکا پیٹ یہ نہیں دیکھتا کہ فلاں جنرل نے کشمیر فتح کیا تھا یا فلاں نے ورلڈ کپ جیتا تھا، بھوکے کی نظر روٹی پر ہوتی ہے اور پھر وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے چوری اور ڈاکے کے ساتھ ساتھ کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
 

زیرک

محفلین
یہی وجہ ہے کہ حکومت ملک ریاض کو پکڑنے کی بجائے اس کے ساتھ مل کر ۵۰ لاکھ گھر بنانے جا رہی ہے۔ یہی اس وقت کا نظریہ ضرورت ہے۔ :)
یوں کہیں کہ غنڈہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ اس سیکٹر میں جن کا سرمایہ لگا ہوا ہے وہ اس ملک کے اصل حاکم ہیں یا حاکموں کے سرپرست۔
 

زیرک

محفلین
جب اس حکومت نے نواز شریف کی طرح خود کش حملہ کرنا ہوگا تو ملک ریاض کا بے لاگ احتساب شرو ع کر دیا جائے گا۔ پھر دما دم مست قلندر ہوگا!
اس ملک میں مقدس گائیوں کا احتساب ممکن نہیں، اس لیے جب بھی کسی مقدس گائے کو مشکل پیش آئے گی، یا ملکی خزانہ خالی ہو گا تو چھری چلے گی تو بے چاری عوام پر، یہ الگ بات کہ جس نے بھی ہاتھی نما بم کو لات ماری نقصان بم کا تو نہیں ہوا، وہی یا تو سولی چڑھ گیا، یا گولی نصیب میں لکھی گئی یا جلاوطنی۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں غریب کا پیٹ کاٹ کر ہی تو برہمن زندہ رہے ہیں اور زندہ رہیں گے۔ جب تک مقدس گائے اور برہمن نما سوچ زندہ ہے، غریب کٹتا رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
٭دیکھیں حکومت صرف ترغیب دے سکتی ہے کہ کہاں سرمایہ کاری کریں کہ جس سے معیشت خاص کر مردہ انڈسٹریل سیکٹر اٹھ کھڑا ہو، لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں، ان کا سرمایہ لے کر کہیں اور لگانے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں ہے، یہ سرمایہ کار کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ کہاں سرمایہ کاری کرتا ہے۔
٭رئیل اسٹیٹ الگ سیکٹر ہے اور ہاؤسنگ الگ، ہاؤسنگ سے 20 سے زائد انڈسٹریز کا پیٹ بھرتا ہے جو کہ سروسز سیکٹر یعنی روزگار فراہم کرنے کا سب سے بڑا اور تیز ذریعہ ہے۔آپ کا نظریہ یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اتنا منافع بخش نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے سرمایہ کاری کا ارتکاز ایک ہی جگہ نہ ہو، سوچ اچھی ہے مگر اس کے لیے اس سیکٹر کی موت ضروری نہیں ہونی چاہیے۔
بہترین تجزیہ۔ زبردست۔
ظاہر ہے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ زراعت، صنعت اور معیشت کے دیگر پیداواری سیکٹرز کو اتنا منافع بخش بنا نے کی کوشش کرے تاکہ سارا پیسا رئیل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری سیکٹر سے نکل کر پیداواری سیکٹر میں واپس آئے۔ تب ہی یہ ملک اپنے پیروں پر صحیح معنوں میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یوں کہیں کہ غنڈہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ اس سیکٹر میں جن کا سرمایہ لگا ہوا ہے وہ اس ملک کے اصل حاکم ہیں یا حاکموں کے سرپرست۔
یہ سارا پیسا اس غیرپیداواری سیکٹر سے نکال کر پیدواری سیکٹر میں کھینچ کر لانا اصل معاشی چیلنج ہے۔ دیکھتے ہیں حکومت باقی ماندہ ساڑھے تین سالوں میں اس حوالہ سے کیا کر پاتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس لیے جب بھی کسی مقدس گائے کو مشکل پیش آئے گی، یا ملکی خزانہ خالی ہو گا تو چھری چلے گی تو بے چاری عوام پر
بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ چونکہ اشرافیہ کے پاس پیسے کی بہتاط ہے تو اس کو فرق نہیں پڑتا ملک کی درآمداد کہاں جا رہی ہیں۔ اشرافیہ کی تو چڈیاں تک امپورٹڈ ہوتی ہیں۔ وہ بجائے ان درآمداد پر انحصار کرنے کے اپنے ہی ملک میں امپورٹڈ کوالٹی جتنی یا اس سے بہتر مصنوعات بنانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟
کیونکہ یہ محنت والا کام ہے جبکہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری سب سے سہل کام۔ ایسے میں حکومت کا فرض ہے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کرے جس سے یہ پیسا رئیل اسٹیٹ کی بجائے پیداواری سیکٹر میں منتقل ہو۔ اور بار بار کے ان خساروں سے قوم کی جان چھوٹے۔


 

جاسم محمد

محفلین
ملک ریاض نے عمران خان کے کرپشن غبارے سے ہوا نکال دی
07/12/2019 سید مجاہد علی



برطانیہ میں غیر مصدقہ دولت کے قانون کے تحت ریاض ملک سے وصول ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈ یا تقریباً 38ارب روپے حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کو منتقل کردیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس دھوکہ دہی کے باوجود ’ کامیاب جوان پروگرام ‘میں شفافیت اور میرٹ کا دعویٰ کررہے ہیں۔
جو حکومت برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے ملک ریاض کے حوالے کرنے جیسا گھناؤنا کارنامہ انجام دے چکی ہے ، وہ کس منہ سے شفافیت اور میرٹ کے مقدس الفاظ استعمال کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم کے منصب کا احترام اپنی جگہ بجا لیکن جس طرح ملک ریاض سے برطانیہ میں ہونے والی وصولی کو درپردہ واپس کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، اس کے بعد اس حکومت کی رہی سہی ساکھ اور دیانت داری کا بھرم ختم ہوچکا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام چوری کو جائز قرار دینے اور عوام کو ان کی جائز دولت سے محروم کرنے کا شرمناک فیصلہ ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ملک کا میڈیا اور سیاسی اپوزیشن اس معاملہ پر کوئی بات کرنے اور عوام کے ساتھ کی جانے والے اس ظلم کا حساب مانگنے کا حوصلہ نہیں کررہے۔ کسی اپوزیشن لیڈر نے اس معاملہ میں حکومت کی پراسرار خاموشی اور اس کے بعد شہزاد اکبر کے ذریعے یہ رقم سپریم کورٹ کے حوالے کرنے کے غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور ناجائز اقدام پر سوال نہیں اٹھایا۔ کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس معاملہ میں ملک ریاض جیسا شخص ملوث ہے جو ہر سیاسی لیڈر اور ہر پارٹی کے ساتھ روابط رکھنے اور انہیں دامے درمے سخنے خوش رکھنے کا گر جانتا ہے۔ نیا پاکستان اور مدینہ ریاست کا نام نہاد بت اپنے ہی ہاتھوں سے گرا کر وزیر اعظم اب برطانیہ کے شفاف نظام کی مثال لاکر بتا رہے ہیں کہ ملک کس طرح ترقی کرتے ہیں۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے ساتھ ایک معاہدہ کے نتیجہ میں 19 کروڑ پاؤنڈ وصول کئے اور یہ رقم پاکستان کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔ شہزاد اکبر کی اطلاعات کے مطابق اس میں سے 14 کروڑ پاؤنڈ پاکستان کو واپس کئے جاچکے ہیں جبکہ 5 کروڑ پاؤنڈ کی رقم لندن کی ایک عمارت فرخت کرنے کے بعد پاکستان کے حوالے کی جائے گی۔ اب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بتا رہے ہیں کہ یہ 14 کروڑ پاؤنڈ اسٹیٹ بنک سے سپریم کورٹ کے نیشنل بنک اکاؤنٹ میں منتقل کئے جاچکے ہیں۔ اور حکومت سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرے گی کہ یہ رقم حکومت کو واپس منتقل کردی جائے تاکہ اسے عوامی بہبود کے منصوبوں پر صرف کیا جائے۔ عوامی بھلائی کا سہانا نعرہ استعمال کرتے ہوئے حکومت عوام کی جیب کاٹنے کی ایک افسوسناک کارروائی کو جائز قرار دینے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ یہ معاملہ اتنا مشکل اور گنجلک نہیں ہے کہ حکومت کا ایک نمائیندہ بے بنیاد دعوؤں کے ذریعے عوام کو دھوکہ دے کر ایک خطیر رقم کو اسی شخص کو واپس کرنے کا اہتمام کرلے جسے ایک غیر ملکی حکومت نے غیرقانونی طور سے دولت جمع رکھنے کے ایک قانون کے تحت وصول کرکے پاکستان کو واپس کیا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے آئیندہ سات برس کے دوران 460 ارب روپے ادا کرنے کے وعدے کے بعد ملک ریاض کے خلاف قانونی کارروائی ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ رقم بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے ناجائز طور سے ہتھیائی گئی زمینوں کے معاوضے کے طور پر وصول کی جائے گی۔ اصولی طور پر یہ رقم ملک ریاض اور ان کی کمپنیوں کو پاکستان میں ادا کرنی ہے اور سپریم کورٹ اسے حکومت سندھ کے حوالے کرے گی۔ بحریہ ٹاؤن کراچی نے متنازعہ زمینیں حاصل کی تھیں۔ عدالت عظمی نے ان زمینوں پر ناجائز قبضہ یا سستے داموں خرید کے معاہدوں کو منسوخ کرتے ہوئے ملک ریاض کو خطیر رقم ادا کرنے کا پابند کیا تھا۔
اس معاملہ کا برطانیہ میں ملک ریاض اور ان کے اہل خاندان کے اکاؤنٹس میں موجود رقوم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ برطانوی ایجنسی نے غیر ثابت شدہ دولت کے قانون کے تحت ملک ریاض کی دولت کا سراغ لگایا۔ جب وہ اس دولت کا ذریعہ آمدنی بتانے میں ناکام رہے تو کسی قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کی بجائے انہوں نے برطانوی حکومت کو 19 کروڑ پاؤنڈ ادا کرنے کی پیش کش کی ،جسے قبول کرلیا گیا۔ اس طرح برطانوی ایجنسی کو 19 کروڑ پاؤنڈ وصول ہوگئے جبکہ ملک ریاض اس معاہدہ کی آڑ میں نہ جانے کتنی دولت کو ’قانونی‘ تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ طریقہ کار کے مطابق چونکہ متعلقہ حکام اس معاہدہ کی تفصیل عام نہیں کریں گے لہذا یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے راز ہی رہے گا۔
شہزاد اکبر اور حکومت پاکستان خواہ جو بھی دعویٰ کریں ، برطانیہ میں وصول کی گئی رقم کے معاملہ میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ کارروائی برطانوی کرائم ایجنسی نے اپنے ایک قانون کے تحت کی اور اسی قانون اور سیاسی فیصلہ کے تحت ناجائز طریقے سے جمع کی گئی دولت کو وصول کرکے اس ملک کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا جہاں سے یہ رقم مبینہ طور پر برطانیہ منتقل کی گئی تھی۔ پاکستان کی حکومت کو یہ جواب دینا ہے کہ اس نے یہ رقم وصول کرتے ہوئے کیا برطانیہ سے پوچھا کہ ملک ریاض سے وصول ہونے والی دولت پاکستان کے حوالے کیوں کی جارہی ہے ؟
یہ سوال نہ بھی کیا گیا ہو تو بھی حکومت سمیت ہر کس و ناکس کو اس کا جواب معلوم ہے۔ ملک ریاض پاکستان میں کمائی گئی دولت کو مختلف غیر قانونی ہتھکنڈوں سے بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔ یعنی منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان کے وسائل برطانیہ میں جمع کرلئے گئے۔ یہ منی لانڈرنگ کا وہی طریقہ ہے جس کے الزام میں آصف زرداری اور فریال تالپور زیر حراست ہیں اور جس کے بارے میں شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کو منی لانڈرنگ مافیا کا اڈا بنایا ہؤا تھا۔
اب پاکستانی حکومت برطانیہ سے وصول ہونے والے 38 ارب روپے سپریم کورٹ کی طرف سے ملک ریاض کو عائد کئے گئے جرمانہ کی مد میں استعمال کررہی ہے۔ یعنی ملک ریاض نے سپریم کورٹ کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے زمینوں کی خریداری میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے 460 ارب روپے کا جو جرمانہ کیا تھا، پاکستان کی ’نیک دل اور اعلیٰ ظرف‘ حکومت نے برطانیہ سے وصول ہونے والے وسائل اس مد میں جمع کرواکے ملک ریاض کی دولت اسے واپس کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ غیر ملکی حکام اور نظام نے پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری کے لئے جو کام کیا، اسے پاکستانی حکومت ناکام بنا کر ملک ریاض کے سامنے سرخرو ہورہی ہے۔ یہ معاملہ سربستہ راز ہی رہے گا کہ کرپشن کے خلاف نعرے بلند کرنے والی حکومت ایک گھناؤنی کرپشن میں ملوث شخص کے ساتھ یہ رحم دلانہ سلوک کرنے پر کیوں مجبور ہے۔
معاملہ لیکن سادہ ہے۔ ملک ریاض کو پاکستان میں سپریم کورٹ نے جرمانہ کیا اور برطانیہ میں ان کی ناجائز دولت کا سراغ لگایا گیا۔ یہ دو مختلف معاملات ہیں لیکن عمران خان کی حکومت انہیں ملا کر ملک ریاض کو فائیدہ پہنچانا چاہ رہی ہے۔ تاکہ برطانیہ کے حکام بھی مطمئن ہوجائیں کہ ناجائز دولت وصول کر لی گئی اور ملک ریاض بھی ناراض نہ ہوں کہ ان کی دولت ہاتھ سے گئی۔ اس مہربانی کی ایک وجہ ملک ریاض کا غیر معمولی اثر و رسوخ ہے اور دوسری وجہ برطانیہ میں پکڑی گئی دولت کے بے نامی مالکان کے مفادات کا تحفط ہوسکتا ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو۔ حکومت نے اس جرم میں شراکت دار بن کر عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور اپنی اخلاقی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یوں تو نیب کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال حسب معمول ملک سے ’کرپشن کے سرطان‘ کو ختم کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے اور ذات کو پس پشت ڈالنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن شہزاد اکبر کے ذریعے دن دہاڑے کی جانے والی 38 ارب روپے کی چوری پر ان کی نظر نہیں جاسکی۔
حکومت جب سپریم کورٹ سے برطانیہ سے آئی ہوئی رقم کو واپس مانگے گی تو کیا جج یہ سوال کریں گے کہ الف) یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں کیوں منتقل کی گئی۔ ب) یہ رقم اگر بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی مد میں دی گئی ہے تو اسے وفاقی حکومت کے حوالے کیوں کیا جائے؟ اس پر تو سندھ کے عوام کا حق ہے اور سندھ حکومت ہی اس رقم کو اپنے منصوبوں پر صرف کرنے کا استحقاق رکھتی ہے۔
عمران خان نے ’کامیاب جوان پروگرام‘ کو شفاف بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کامیاب معاشرے میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں، اپنے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع دیتے ہیں تاکہ وہ محنت سے اپنی جگہ بنا سکیں۔ برطانیہ نے اس شفافیت اور اصول پرستی کا مظاہرہ ملک ریاض سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت پاکستان کو واپس کرکے فراہم کیا ہے۔ عمران خان کی حکومت وہی دولت ملک ریاض کو واپس کرکے کون سے شفافیت کا دعویٰ کررہی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت جب سپریم کورٹ سے برطانیہ سے آئی ہوئی رقم کو واپس مانگے گی تو کیا جج یہ سوال کریں گے کہ الف) یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں کیوں منتقل کی گئی۔ ب) یہ رقم اگر بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی مد میں دی گئی ہے تو اسے وفاقی حکومت کے حوالے کیوں کیا جائے؟ اس پر تو سندھ کے عوام کا حق ہے اور سندھ حکومت ہی اس رقم کو اپنے منصوبوں پر صرف کرنے کا استحقاق رکھتی ہے۔
سندھ حکومت تو الٹا اپنے فرنٹ مین ملک ریاض کو بحریہ ٹاؤن اراضی کیس میں ہر قسم کے غبن سے بری از ذمہ قرار دے رہی تھی۔ اس لئے یہ رقم کسی صورت سندھ حکومت کو نہیں ملے گی۔
 
Top