برباد گلستاں کرنے کو، صرف ایک ہی الّو کافی تھا، ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا۔

برباد گلستاں کرنے کو، صرف ایک ہی الّو کافی تھا،
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا۔

اس شعر کی روشنی میں بنے ہمارے کچھ تجزیاتی اشعار۔۔۔

برائے تنقید و اصلاح۔۔۔

مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن

حیران کن ترقی پر گامزن وطن ہے،
الّو بھی پل رہے ہیں، آباد بھی چمن ہے۔

آزاد بھیڑئیے ہیں، خوراک آدمی ہے،
رکشک ہیں جانور کے، ایسا عجب ذہن ہے۔

ہر سمت نوجواں کی، ضائع صلاحيت ہے،
بے روزگار جیسے، تاروں بھرا گگن ہے۔

اونچی عمارتوں سے، اونچے مجسمے ہیں،
کمزور شہریوں کا، اجڑا ہوا صحن ہے

محلَوں میں ظالموں کے، کتے بھی ٹھاٹھ میں ہیں،
بے گھر ہیں انکی مائیں، بے آبرو بہن ہے۔

خوں ریزیاں ہیں عام اور، مظلوم جیل میں ہیں،
مندر بنے یا مسجد، حاکم یوں ہی مگن ہے۔

گڑیاں ہیں گھر امیروں، کی زیب تن بہت اور،
نوکر کا سرد رو سے، ٹھٹھرتا ہوا بدن ہے۔

زر چھوڑتا اثر دل، میں گھولتا زهر ہے،
اپنوں کے ضرب کھا کر، عاصؔم یوں دل شکن ہے۔
 

آصف مجید

محفلین
بہت خوب
بربادِ گلستاں کرنے کو صرف ایک ہی الّو کافی تھا
یہ شعر جناب شوق بہرانچی صاحب کا ہے
اس شعر کو تصویری شکل میں ملاحظہ کریں
کلک کریں
 
مندرجہ بالا شعر میں لفظ " صرف" کی جگہ" بس " ہے

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

لفظ " صرف" استعمال کرنے سے مصرع اپنا وزن کھو بیھٹتا ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
Top