براے اصلاح

خواب کے اس جہاں سے گزر جائیں گے
یعنی ہم آسماں سے ہو کر جائیں گے

خوش خرامی کریں آپ دل میں مرے
پاؤں نازک سے لے کر کدھر جائیں گے

دیکھ کر دشت سا شہر دل میں سکوں
کیا خبر تھی ہمیں آپ ڈر جائیں گے

آپ اپنا پتہ دیں نہ دیں خیر ہے
دل جدھر جائے گا ہم ادھر جائیں گے

ہم ادھر جائیں گے جان سے بے خبر
جان ہی جائے گی بال و پر جائیں گے

وصل ہم کو ہی ہم سے کرے غیر خود
سانس ٹل جائے گی ہم کہ مرجائیں گے

آپ خوشبو سا لہجہ بدلنے نہ دیں
وہ جو بدلہ تو ہم بھی بکھر جائیں گے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں 'ہو کر' کو 'ہکر' باندھا گیا ہے۔ واو کا یہ اسقاط درست نہیں یوں کر دیں
خواب کے اس جہاں سے بسر جائیں گے
یعنی ہم آسماں سے گزر جائیں گے
پانچواں اور چھٹا شعر سمجھ میں نہیں آیا
 
Top