برای اصلاح

ارتضی عافی

محفلین
عزت ہماری قوم میں عزت نہیں رہی
گالی یہاں رہی تو محبت نہیں رہی
خالق کو کوئی گالی دے تو کوئی آغا کو
اب دونوں کے یہاں پہ تو عزت نہیں رہی
ان دو کو اپنے قوم سے ہی ہار جانا ہے
اب غیر کو تو فکر ضرورت نہیں رہی
عزت تو رہبروں کی یہاں کرتے ہم نہیں
افسوس ہم کو ان سے محبت نہیں رہی
بے غیرتی سے ان کی ہمی جان لیتے ہیں
ضربت کی غیر کو تو ضرورت نہیں رہی
عافی تمھاری باتیں یہاں کون مانیں گی
ان میں نصیحتوں کی تو چاہت نہیں رہی
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
الف عین محمد ریحان قریشی استادوں سے اصلاح کی گزارش ہیں
 
ماشاءاللہ اچھی غزل ہے۔ تھوڑی بہت نوک پلک سنور جائے تو مزید اچھی ہو جائے گی۔
عزت کے جابجا اور بےجا استعمال نے غزل کا رنگ تھوڑا پھیکا کر دیا ہے، اور وزن برابر کرنے کی تگ و دو میں بہت سے مقامات پر حروف کو بھی گرا دیا گیا ہے۔ حروف کا ضرورت کے تحت لیکن قاعدے کے مطابق گرانا جائز ہے لیکن مسلسل ایسا کرنے سے کلام کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔
عزت ہماری قوم میں عزت نہیں رہی
گالی یہاں رہی تو محبت نہیں رہی
بات ٹھیک ہے کہ گالی کی وجہ سے محبت ختم ہو جاتی ہے، لیکن الفاظ کے چناؤ میں احتیاط بہتر رہتی ہے۔ دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ دوسرا مصرعہ اگر بدل کر یوں کر دیا جائے تو بہتر ہوگا
شاید کسی کو اس کی ضرورت نہیں رہی

خالق کو کوئی گالی دے تو کوئی آغا کو
اب دونوں کے یہاں پہ تو عزت نہیں رہی
گالی کی "ی" گری ہے تو آغا کا بھی "الف"
خالق کو کون گالی دیتا ہے؟ میں نے تو کسی مذہب میں ایسا نہیں دیکھا۔ اور اگر خالق کسی شخص کا نام ہے تو الگ بات ہے، لیکن خالق اور آغا کو گالی دینے کی کوئی وجہ بھی تو بیان ہو۔
آپ اس شعر میں جو کہنا چاہ رہے ہیں اس کا ابلاغ نہیں ہو رہا، دوبارہ کوشش کریں۔


ان دو کو اپنے قوم سے ہی ہار جانا ہے
اب غیر کو تو فکر ضرورت نہیں رہی

اپنے کا "ے" اور جانا کا "الف" گر رہے ہیں۔
کن دو کو اپنی قوم سے ہارنا ہے؟ وضاحت ضروری ہے۔ ابلاغ کی کمی ہے مشورہ ہے کہ دوبارہ کوشش کریں۔


عزت تو رہبروں کی یہاں کرتے ہم نہیں
افسوس ہم کو ان سے محبت نہیں رہی
پہلے مصرعہ میں روانی کی کمی ہے، اور رہبروں سے محبت کی بجائے عقیدت کی جائے تو زیادہ مناسب لگے گا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ
عزت تو رہنما کی بھی کرتے نہیں ہیں ہم
افسوس ہم کو ان سے عقیدت نہیں رہی

بے غیرتی سے ان کی ہمی جان لیتے ہیں
ضربت کی غیر کو تو ضرورت نہیں رہی
شعر سمجھ آنے تک کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ وضاحت کی درخواست ہے۔

عافی تمھاری باتیں یہاں کون مانیں گی
ان میں نصیحتوں کی تو چاہت نہیں رہی
تمہاری کی "ی" باتیں کی "تیں"، مانیں کی "نیں" گر رہے ہیں۔

عافی نصیحتیں تری سنتا نہیں کوئی
لگتا ہے اب کسی کی بھی حاجت نہیں رہی

آپ چاہیں تو حاجت کی بجائے چاہت بھی کر سکتے ہیں

بہت خوب زمین ہے، قافیہ بھی بہت جاندار ہے، بہت سے موضوعات باندھنے کی بھرپور گنجائش ہے۔ دوبارہ کوشش کریں اور مزید قافیہ پیمائی کریں۔ انشاءاللہ بہت عمدہ غزل بنے گی۔
اعتراضات پر دل چھوٹا نہ کیجیئے گا کہ اصلاحِ سخن کے لئے ضروری ہے۔​
 
آخری تدوین:

ارتضی عافی

محفلین
ماشاءاللہ اچھی غزل ہے۔ تھوڑی بہت نوک پلک سنور جائے تو مزید اچھی ہو جائے گی۔
عزت کے جابجا اور بےجا استعمال نے غزل کا رنگ تھوڑا پھیکا کر دیا ہے، اور وزن برابر کرنے کی تگ و دو میں بہت سے مقامات پر حروف کو بھی گرا دیا گیا ہے۔ حروف کا ضرورت کے تحت لیکن قاعدے کے مطابق گرانا جائز ہے لیکن مسلسل ایسا کرنے سے کلام کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔
عزت ہماری قوم میں عزت نہیں رہی
گالی یہاں رہی تو محبت نہیں رہی
بات ٹھیک ہے کہ گالی کی وجہ سے محبت ختم ہو جاتی ہے، لیکن الفاظ کے چناؤ میں احتیاط بہتر رہتی ہے۔ دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ دوسرا مصرعہ اگر بدل کر یوں کر دیا جائے تو بہتر ہوگا
شاید کسی کو اس کی ضرورت نہیں رہی

خالق کو کوئی گالی دے تو کوئی آغا کو
اب دونوں کے یہاں پہ تو عزت نہیں رہی
گالی کی "ی" گری ہے تو آغا کا بھی "الف"
خالق کو کون گالی دیتا ہے؟ میں نے تو کسی مذہب میں ایسا نہیں دیکھا۔ اور اگر خالق کسی شخص کا نام ہے تو الگ بات ہے، لیکن خالق اور آغا کو گالی دینے کی کوئی وجہ بھی تو بیان ہو۔
آپ اس شعر میں جو کہنا چاہ رہے ہیں اس کا ابلاغ نہیں ہو رہا، دوبارہ کوشش کریں۔


ان دو کو اپنے قوم سے ہی ہار جانا ہے
اب غیر کو تو فکر ضرورت نہیں رہی

اپنے کا "ے" اور جانا کا "الف" گر رہے ہیں۔
کن دو کو اپنی قوم سے ہارنا ہے؟ وضاحت ضروری ہے۔ ابلاغ کی کمی ہے مشورہ ہے کہ دوبارہ کوشش کریں۔


عزت تو رہبروں کی یہاں کرتے ہم نہیں
افسوس ہم کو ان سے محبت نہیں رہی
پہلے مصرعہ میں روانی کی کمی ہے، اور رہبروں سے محبت کی بجائے عقیدت کی جائے تو زیادہ مناسب لگے گا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ
عزت تو رہنما کی بھی کرتے نہیں ہیں ہم
افسوس ہم کو ان سے عقیدت نہیں رہی

بے غیرتی سے ان کی ہمی جان لیتے ہیں
ضربت کی غیر کو تو ضرورت نہیں رہی
شعر سمجھ آنے تک کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ وضاحت کی درخواست ہے۔

عافی تمھاری باتیں یہاں کون مانیں گی
ان میں نصیحتوں کی تو چاہت نہیں رہی
تمہاری کی "ی" باتیں کی "تیں"، مانیں کی "نیں" گر رہے ہیں۔

عافی نصیحتیں تری سنتا نہیں کوئی
لگتا ہے اب کسی کی بھی حاجت نہیں رہی

آپ چاہیں تو حاجت کی بجائے چاہت بھی کر سکتے ہیں

بہت خوب زمین ہے، قافیہ بھی بہت جاندار ہے، بہت سے موضوعات باندھنے کی بھرپور گنجائش ہے۔ دوبارہ کوشش کریں اور مزید قافیہ پیمائی کریں۔ انشاءاللہ بہت عمدہ غزل بنے گی۔
اعتراضات پر دل چھوٹا نہ کیجیئے گا کہ اصلاحِ سخن کے لئے ضروری ہے۔​
بھائی بہت شکریہ وقت دینے کا
عزت ہماری قوم میں عزت نہیں رہی
شاید کسی کو اس کی ضرورت نہیں رہی
ہم خالق و رضا کو برا کہتے ہیں بے وجہ
اب دونوں کے یہاں پہ تو عزت نہیں رہی
ان رہنما کو اپنے قوم سے ہی ہار جانا ہے
اب غیر کو تو فکر ضرورت نہیں رہی
عزت تو رہنما کی بھی کرتے نہیں ہیں ہم
افسوس ہم کو ان سے عقیدت نہیں رہی
بے حس ہو کر تو ان کی ہمی جان لیتے ہیں
اب ضرب غیروں کی تو ضرورت نہیں رہی
عافی نصیحتیں تری سنتا نہیں کوئی
لگتا ہے اب کسی کی بھی حاجت نہیں رہی
ضربت فارسی کا لفظ ہے اور مصرع تبدیل کیا ہے اب رہنمائی کریں تو مہربانی ہوگی..
 

ارتضی عافی

محفلین
جو مصرعے تبدیل کیے ہیں، وہ درست نہیں ہوئے ہیں،
سر جہاں مصرع تبدیل کیا ہے وجہ بیان کرنے کو کہا تھا جبکہ بے وجہ ہے یعنی ہم خالق نام ہے اور رضا بھی ہم دونوں کو بے وجہ برا کہتے ہیں یعنی ان دونوں کی تو یہاں عزت نہیں رہی اگلے مصرع میں کن دو کا کہا تھا جبکہ بدل دیا ہے وہ بھی ان رہنما کو اپنے قوم سے ہی ہار جانا ہے اور غیر کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں رہی اور اگلا مصرع میں بے حسی سے تو ان رہنما کی ہمی جان لیتے ہیں غیروں کو ضرب کی ضرورت نہیں رہی کیا یہ اس میں اگر اور غلطی ہے نشاندہی کریں سر مہربانی وقت دینے کے لیے
 
عزت ہماری قوم میں عزت نہیں رہی
شاید کسی کو اس کی ضرورت نہیں رہی
درست

ہم خالق و رضا کو برا کہتے ہیں بے وجہ
اب دونوں کے یہاں پہ تو عزت نہیں رہی
خالق اور رضا کون ہیں؟ اور ان کا تذکرہ آپ اتنا ضروری کیوں سمجھ رہے ہیں۔
یہ قافیہ مطلع میں استعمال بھی ہو چکا ہے، اگر کسی اور معنی میں استعمال ہو سکتا ہے تو ٹھیک ورنہ اس شعر کو نکال ہی دیں۔


ان رہنما کو اپنے قوم سے ہی ہار جانا ہے
اب غیر کو تو فکر ضرورت نہیں رہی
جس رہنما کا اپنی قوم سے مقابلہ چل رہا ہو (جس کا نتیجہ آپ نے ہارنا بتایا ہے)
ایسے کرپٹ رہنما کے لئے غیر کیوں فکرمند ہوگا؟ خیال اور ابلاغ دونوں کمزورہیں۔ کوئی اور خیال لے کر آئیں جیسے

لوٹا ہے ہر کسی نے قیادت کی آڑ میں
اب ہم کو رہنما کی ضرورت نہیں رہی


عزت تو رہنما کی بھی کرتے نہیں ہیں ہم
افسوس ہم کو ان سے عقیدت نہیں رہی
درست

بے حس ہو کر تو ان کی ہمی جان لیتے ہیں
اب ضرب غیروں کی تو ضرورت نہیں رہی
اس شعر میں آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں، نثر میں بتا دیں پھر شاعری کی بات کریں گے۔

عافی نصیحتیں تری سنتا نہیں کوئی
لگتا ہے اب کسی کی بھی حاجت نہیں رہی
درست
 
سر جہاں مصرع تبدیل کیا ہے وجہ بیان کرنے کو کہا تھا جبکہ بے وجہ ہے یعنی ہم خالق نام ہے اور رضا بھی ہم دونوں کو بے وجہ برا کہتے ہیں یعنی ان دونوں کی تو یہاں عزت نہیں رہی اگلے مصرع میں کن دو کا کہا تھا جبکہ بدل دیا ہے وہ بھی ان رہنما کو اپنے قوم سے ہی ہار جانا ہے اور غیر کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں رہی اور اگلا مصرع میں بے حسی سے تو ان رہنما کی ہمی جان لیتے ہیں غیروں کو ضرب کی ضرورت نہیں رہی کیا یہ اس میں اگر اور غلطی ہے نشاندہی کریں سر مہربانی وقت دینے کے لیے
آپ استادِ محترم کا اشارہ نہیں سمجھ پائے، خیر رہنے دیں۔ بات لمبی ہو جائے گی۔
 
Top