ذوالقرنین

لائبریرین
مہر مَفَک کم ساڑ و بدی اَٹ
محبت کم نہیں ہوتا حسد اور بدی کرنے سے
خِیسُنی اَٹ خَنتا زبان نا رِی اٹ
آنکھیں سرخ کرکے دکھانے سے یا زبان درازی سے
کھڈ اَس خَنوس تو تینَٹ تَموس ("شد" کس کلید پر ہے)
اگر دوسرے کے لیے کھڈا کھودا تو پہلے خود گرو گے
آزمائیفو کے دا سال و صدی اٹ
کسی آزمائے ہوئے کو سالوں یا صدیوں میں
خالی ءُ پُھل آ تِیان نا گلشن
تمہارا گلشن پھولوں سے خالی ہے
تینتون ہوغوس تینا کمی اٹ
اپنے آپ کے ساتھ خود روؤ گے یہ کمی محسوس کرکے
مہر کِن پَنداک سال آتا کم ءُ
محبت کو پانے کے لیے سالوں تک پیدل چلنا بھی کم ہے
خوشی مَرے یا خَن تا نمی اٹ
چاہے اس کے بدلے خوشی ملے یا آنکھوں میں نمی
آدینک ءِ نفرت نا اَگہ پِرغِس
اگر نفرت کے آئینے کو توڑ دو گے تو
تینے خَنوس ہَر بیگانہ ئی اٹ
خود کو ہر بیگانے کے ساتھ پاؤ گے
پُورا نا ارمان اے بابُو مروئے
اے بابو (شاعر کا نام) تمہارا یہ ارمان پورا ہو سکے گا
آخر مہر خَنوس نِی دا خُدائی اٹ
آخرکار تم بھی محبت پا سکو گے اس دنیا (خدائی) میں
بابو نواز - حب چوکی​
 

حسان خان

لائبریرین
بہت شکریہ ذوالقرنین بھائی۔ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا یہ بھی طریقہ ہے کہ اُن کے ادب کا ترجمہ کر کے سب کو اُس سے شناسا کرایا جائے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بہت شکریہ ذوالقرنین بھائی۔ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا یہ بھی طریقہ ہے کہ اُن کے ادب کا ترجمہ کر کے سب کو اُس سے شناسا کرایا جائے۔
شکریہ حسان بھائی! یہ امر ضروری ہے کہ پاکستان میں بسنے والے سارے ادبی تخلیقات یا تحقیقات کا جائزہ لیا جائے۔ چاہے وہ جس زبان میں بھی ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
شکریہ حسان بھائی! یہ امر ضروری ہے کہ پاکستان میں بسنے والے سارے ادبی تخلیقات یا تحقیقات کا جائزہ لیا جائے۔ چاہے وہ جس زبان میں بھی ہو۔

یقیناً۔ اور اسی لیے میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ ہمیں اسی طرح مزید براہوی ادب سے نوازتے رہیں گے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ذوالقرنین بھائی، غزل شیئر کرنے کا شکریہ۔ میرا تمام بچپن اور نوجوانی مستونگ شہر میں گزرے۔خراب حالات کی وجہ سے وہاں سے نکلنا پڑا۔جب ہم نکلے تھے تب تو حالات پھر بھی اچھے تھے ۔ اب تو سنتے ہیں کہ مستونگ میں کوئی سیٹلر نہ بچا۔ کاش چند بد بخت حالات خراب نہ کرتے تو میں پھر مستونگ جا کر رہتا، کہ جیسا سکون وہاں کے طویل و عریض میدا نوں میں ملتا تھا راولپنڈی کے گنجان آباد شہر میں نہیں مل سکتا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ مستونگ شہر یاد نہ آتا ہو۔ گھر میں بھی ہر دوسرے روز مستونگ کا تذکرہ ہوتا ہے۔

اب اتنا طویل عرصہ دور رہنے کی وجہ سے براہوی بول تو نہ سکوں گا، مگر اگر کسی کو بولتے دیکھوں تو سمجھنے میں شاید خاص دقت نہ ہو۔ لفظ مگر بھولتے جا رہے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں سیب، شفتالو، خوبانی کے درختوں پر کیسے حسین پھول کھلیں گے (شاید کِھل بھی چکے ہوں!)۔ کاش میں وہ منظر دیکھنے کے لیے وہاں ہوتا۔ "گواڑخ" کے پھول آج بھی دل و دماغ میں بسے ہیں۔ میرا تمام بچپن توت کے درختوں پر چڑھتے اور "ڈھوروں"، کاریزوں میں وقت گزارتے گزرا۔ کیا آپ کبھی مستونگ جا تے ہیں؟ اگر ہاں تو کچھ وہاں کے بارے میں بتائیں۔ مستونگ بہت یاد آتا ہے۔ ہو سکے تو میدانوں میں اُگے "گواڑخ" کے تختوں کی کوئی تصویر بھجوائیں۔

اپنے بچپن کی کچھ یادیں میں نے اپنے تعارف میں بیان بھی کی ہیں۔ تفصیلی ذکر پھر کبھی کروں گا۔

اپنے بلوچ بھائیوں کو سمجھائیں کہ ہم بھی اس زمین سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا کہ وہ۔ آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی مستونگ کی ہواؤں کی خوشبو نہیں بھولی۔ یہ محبت تو اب قبر تک ساتھ رہے گی۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ذوالقرنین بھائی، غزل شیئر کرنے کا شکریہ۔ میرا تمام بچپن اور نوجوانی مستونگ شہر میں گزرے۔خراب حالات کی وجہ سے وہاں سے نکلنا پڑا۔جب ہم نکلے تھے تب تو حالات پھر بھی اچھے تھے ۔ اب تو سنتے ہیں کہ مستونگ میں کوئی سیٹلر نہ بچا۔ کاش چند بد بخت حالات خراب نہ کرتے تو میں پھر مستونگ جا کر رہتا، کہ جیسا سکون وہاں کے طویل و عریض میدا نوں میں ملتا تھا راولپنڈی کے گنجان آباد شہر میں نہیں مل سکتا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ مستونگ شہر یاد نہ آتا ہو۔ گھر میں بھی ہر دوسرے روز مستونگ کا تذکرہ ہوتا ہے۔

اب اتنا طویل عرصہ دور رہنے کی وجہ سے براہوی بول تو نہ سکوں گا، مگر اگر کسی کو بولتے دیکھوں تو سمجھنے میں شاید خاص دقت نہ ہو۔ لفظ مگر بھولتے جا رہے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں سیب، شفتالو، خوبانی کے درختوں پر کیسے حسین پھول کھلیں گے (شاید کِھل بھی چکے ہوں!)۔ کاش میں وہ منظر دیکھنے کے لیے وہاں ہوتا۔ "گواڑخ" کے پھول آج بھی دل و دماغ میں بسے ہیں۔ میرا تمام بچپن توت کے درختوں پر چڑھتے اور "ڈھوروں"، کاریزوں میں وقت گزارتے گزرا۔ کیا آپ کبھی مستونگ جا تے ہیں؟ اگر ہاں تو کچھ وہاں کے بارے میں بتائیں۔ مستونگ بہت یاد آتا ہے۔ ہو سکے تو میدانوں میں اُگے "گواڑخ" کے تختوں کی کوئی تصویر بھجوائیں۔

اپنے بچپن کی کچھ یادیں میں نے اپنے تعارف میں بیان بھی کی ہیں۔ تفصیلی ذکر پھر کبھی کروں گا۔

اپنے بلوچ بھائیوں کو سمجھائیں کہ ہم بھی اس زمین سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا کہ وہ۔ آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی مستونگ کی ہواؤں کی خوشبو نہیں بھولی۔ یہ محبت تو اب قبر تک ساتھ رہے گی۔

کاشف عمران ۔۔۔ کچھ تصاویر مستونگ کی ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔ ربط ۔۔۔ ایک اور ربط
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کاشف عمران ۔۔۔ کچھ تصاویر مستونگ کی ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔ ربط ۔۔۔ ایک اور ربط
بہت شکریہ۔ یہ ہے پائلٹ سکول مستونگ جہاں سے میں نے میٹرک کیا تھا۔ تصویروں کا تو بہانہ ہے۔ مستونگ تو دل میں بسا ہے۔ ان درختوں کی شاخیں تک نہیں بھولیں جن پر چڑھ کر پوری پوری دوپہریں گزار دیتے تھے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ چند گھنٹے قبل ہی میں نے چار برس بعد دوبارہ شاعری شروع کی اور اب ایک دوست نےمستونگ کی جو تصاویر شیئر کی ہیں ان میں ایک ایسی خوبصورت تصویر ہے جو عین اس شعر کی روح کو بیان کرتی ہے؟ میں اپنا یہ شعر مستونگ شہر کی حسین شاموں کے نام کرتا ہوں۔ (اس غزل کے باقی شعر یہاں پڑھیں)

ptCZBUz.jpg
photo.php
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بہت بہت شکریہ کاشف عمران بھائی! حالات صرف آپ لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ پورے مستونگ کے باشعور باشندوں کے لیے خراب ہوتے چلے گئے۔ پہلے تو بہانہ کچھ اور تھا۔ آپ لوگوں کے جانے کے بعد تقریبا سو ڈیڑھ سو کے قریب مقامی باشندوں کو دن دہاڑے مارا گیا یہ کہہ کر یہ "جاسوس" ہیں۔ اس کے بعد پٹھانوں کی باری آئی۔ بعد میں ہندو تاجروں کو مارا گیا اور وہ بیچارے بھی ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ خوبصورت، پرسکون، ہر قسم کی گند سے پاک شہر کو کیا ہوگیا کہ اب ہول آنے لگتا ہے۔ سرِ شام ہی بازار بند ہونے لگتا ہے کہ مبادا اگلے پل کسی کے ساتھ کیا ہو جائے۔
شاید آپ کو یاد ہوگا کہ یہاں بھائی چارے کی جو فضا قائم تھی میرے خیال سے پورے بلوچستان میں کہیں نہیں تھا۔ امیر ہو یا غریب، اپنا ہو یا پرایا، پڑوسی چاہے جس قوم، نسل سے تعلق رکھتا تھا، اس کی قوم، نسل سے پہلے ہی اس کا پڑوسی اس کا دکھ، درد، خوشی بانٹنے پہنچ جاتا تھا۔
میرا خود مستونگ شہر کے کلی بہرام شہی سے تعلق ہے۔ آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت بہت شکریہ کاشف عمران بھائی! حالات صرف آپ لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ پورے مستونگ کے باشعور باشندوں کے لیے خراب ہوتے چلے گئے۔ پہلے تو بہانہ کچھ اور تھا۔--------
میرا خود مستونگ شہر کے کلی بہرام شہی سے تعلق ہے۔ آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے؟

ذوالقرنین بھائی، کیسی غم بھری داستان آپ نے سنائی۔ سن کر دل سے آہ سی نکلتی ہے۔ یہ سب کسی حدتو تک بیرونی خفیہ ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے جن کی نظر بلاچستان کی وسیع و عریض سر زمین اور وہاں کے وسائل پر ہے۔مگر ان سے بڑا ہاتھ تو ہمارے اپنے عاقبت نا اندیش دوستوں کا ہے جو ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں یا پھر خود ہی تعصبات کی آگ میں جلتے ہوئے پورے آشیاں کو راکھ کر دینے کے در پے ہیں۔ دوسری طرف فرقہ واریت پھیلانے والے شدت پسند بھی ہیں۔ کوئی ایک دشمن ہو تو نام لیں۔ یہاں تو چار جانب سے وار ہو رہے ہیں۔

ابھی ابھی اپنی والدہ سے تذکرہ کیا تو ساری پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ میری والدہ 1985-1882 تین سال بہرام شہی کے گرلز پرائمری سکول میں پڑھاتی رہیں۔ وہاں کے بیسیوں لڑکے لڑکیاں ان کے شاگرد رہے ہیں۔ بہرام شہی کے سادات تو انہیں خوب پہچانتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ ہم نے ان کی طرف سے بھجوائے پھل اور سبزیاں خوب کھائیں ہیں۔ ہم بچپن میں اکثر والدہ کے ساتھ وہاں جاتے تھے۔میں نے بڑی بار بہرام شہی کی کاریز کا پانی پیا ہے۔ کیا پیاری سرنگ تھی اس کاریز کی۔ کیا اب بھی اس کاریز میں پانی ہے یا ٹیوب ویلوں نے اسے بھی خشک کر دیا؟

ہمارا گھرشہر میں گرلز ہائی سکول اور ڈاکخانے سے کچھ نیچے عزیز آباد کے علاقے میں تھا۔ سنتا ہوں کہ بعد میں وہاں کے ایک براہوی شاعر "حمید عزیز آبادی" نے شہرت پائی۔ میں نے پائلٹ
اسکول میں 1992-1988کے دوران چھٹی سے دسویں تک تعلیم حاصل کی۔پرائمری کی تعلیم گرلز ہائی سکول (کسی کو حیرت نہ ہو، وہاں کے تمام سکولوں کے پرائمری سیکشن میں لڑکے لڑکیاں اکٹھےپڑھتے تھے ) میں پائی تھی۔ میٹرک کے بعد 1993 میں حصولِ تعلیم کے لیے کوئٹہ چلا آیا۔مگر گھر وہیں ہونے کے سبب آنا جانا لگا رہتاتھا۔ 1998 میں گھر شفٹ کر لیا۔ پھر کبھی مستونگ نہ جا سکا۔ شاید کبھی جا کر پرانی یادیں تازہ کر سکوں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ذوالقرنین بھائی، کیسی غم بھری داستان آپ نے سنائی۔ سن کر دل سے آہ سی نکلتی ہے۔ یہ سب کسی حدتو تک بیرونی خفیہ ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے جن کی نظر بلاچستان کی وسیع و عریض سر زمین اور وہاں کے وسائل پر ہے۔مگر ان سے بڑا ہاتھ تو ہمارے اپنے عاقبت نا اندیش دوستوں کا ہے جو ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں یا پھر خود ہی تعصبات کی آگ میں جلتے ہوئے پورے آشیاں کو راکھ کر دینے کے در پے ہیں۔ دوسری طرف فرقہ واریت پھیلانے والے شدت پسند بھی ہیں۔ کوئی ایک دشمن ہو تو نام لیں۔ یہاں تو چار جانب سے وار ہو رہے ہیں۔
واقعی کاشف بھائی! آپ کی بات سے متفق ہوں۔ جب تک یہاں مستونگ کے باشندے تھے تو سب کچھ صحیح ہو گیا لیکن جب بگٹی صاحب کے واقعے کے بعد یہاں بھی باہر کے باشندے آ بسے اور آگ اور خون کا بازار گرم کرنے لگے۔
ابھی ابھی اپنی والدہ سے تذکرہ کیا تو ساری پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ میری والدہ 1985-1882 تین سال بہرام شہی کے گرلز پرائمری سکول میں پڑھاتی رہیں۔ وہاں کے بیسیوں لڑکے لڑکیاں ان کے شاگرد رہے ہیں۔ بہرام شہی کے سادات تو انہیں خوب پہچانتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ ہم نے ان کی طرف سے بھجوائے پھل اور سبزیاں خوب کھائیں ہیں۔ ہم بچپن میں اکثر والدہ کے ساتھ وہاں جاتے تھے۔میں نے بڑی بار بہرام شہی کی کاریز کا پانی پیا ہے۔ کیا پیاری سرنگ تھی اس کاریز کی۔ کیا اب بھی اس کاریز میں پانی ہے یا ٹیوب ویلوں نے اسے بھی خشک کر دیا؟
سن کر اچھا لگا۔ میرے خیال سے آپ کا والد بہرام شہی مقابل پیرکانو اسکول میں معلمہ رہ چکی ہونگی جہاں پہ اکثریت بدوزیوں کی ہے۔ ہمارا محلہ وہاں سے تھوڑا اوپر بہرام شہی جہاں یکپاسی پیر واقع ہے۔ میں نے وہاں کے پرائمری سکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہے۔
ہمارا گھرشہر میں گرلز ہائی سکول اور ڈاکخانے سے کچھ نیچے عزیز آباد کے علاقے میں تھا۔ سنتا ہوں کہ بعد میں وہاں کے ایک براہوی شاعر "حمید عزیز آبادی" نے شہرت پائی۔ میں نے پائلٹ
اسکول میں 1992-1988کے دوران چھٹی سے دسویں تک تعلیم حاصل کی۔پرائمری کی تعلیم گرلز ہائی سکول (کسی کو حیرت نہ ہو، وہاں کے تمام سکولوں کے پرائمری سیکشن میں لڑکے لڑکیاں اکٹھےپڑھتے تھے ) میں پائی تھی۔ میٹرک کے بعد 1993 میں حصولِ تعلیم کے لیے کوئٹہ چلا آیا۔مگر گھر وہیں ہونے کے سبب آنا جانا لگا رہتاتھا۔ 1998 میں گھر شفٹ کر لیا۔ پھر کبھی مستونگ نہ جا سکا۔ شاید کبھی جا کر پرانی یادیں تازہ کر سکوں۔
حمید عزیز آبادی صاحب کو میں نے اردو محفل سے متعارف کروا دیا ہے۔ ابھی تک اردو محفل میں شاذ و نادر آتا ہے لیکن اسے محفل کا چسکہ لگ چکا ہے۔ عزیز آباد میں تو ایک طرح سے میرا بچپن گزرا ہے۔ جب میں چھٹی میں تھا تو اس وقت سے لے کر انٹر تک میں ڈاکٹر مجید سمالانی کے گھر اس کے بیٹے نوید اور اس کی امی سے ٹیوشن پڑھنے آتا تھا۔ ٹیوشن کے بعد سارے دوست جیسا کہ نوید بھائی، عبید، ذیشان، انور وغیرہ شام تک کرکٹ کھیلتے تھے۔ میرا عبید سے بڑی گاڑی چھنتی تھی کیونکہ ہم دونوں کا شوق ایک ہی تھا یعنی پینٹنگ۔ کافی ساری یادیں وابستہ ہیں عزیز آباد سے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
واقعی کاشف بھائی! آپ کی بات سے متفق ہوں۔ جب تک یہاں مستونگ کے باشندے تھے تو سب کچھ صحیح ہو گیا لیکن جب بگٹی صاحب کے واقعے کے بعد یہاں بھی باہر کے باشندے آ بسے اور آگ اور خون کا بازار گرم کرنے لگے۔

سن کر اچھا لگا۔ میرے خیال سے آپ کا والد بہرام شہی مقابل پیرکانو اسکول میں معلمہ رہ چکی ہونگی جہاں پہ اکثریت بدوزیوں کی ہے۔ ہمارا محلہ وہاں سے تھوڑا اوپر بہرام شہی جہاں یکپاسی پیر واقع ہے۔ میں نے وہاں کے پرائمری سکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہے۔

حمید عزیز آبادی صاحب کو میں نے اردو محفل سے متعارف کروا دیا ہے۔ ابھی تک اردو محفل میں شاذ و نادر آتا ہے لیکن اسے محفل کا چسکہ لگ چکا ہے۔ عزیز آباد میں تو ایک طرح سے میرا بچپن گزرا ہے۔ جب میں چھٹی میں تھا تو اس وقت سے لے کر انٹر تک میں ڈاکٹر مجید سمالانی کے گھر اس کے بیٹے نوید اور اس کی امی سے ٹیوشن پڑھنے آتا تھا۔ ٹیوشن کے بعد سارے دوست جیسا کہ نوید بھائی، عبید، ذیشان، انور وغیرہ شام تک کرکٹ کھیلتے تھے۔ میرا عبید سے بڑی گاڑی چھنتی تھی کیونکہ ہم دونوں کا شوق ایک ہی تھا یعنی پینٹنگ۔ کافی ساری یادیں وابستہ ہیں عزیز آباد سے۔

ناموں اور چہروں سے متعلق میرا حافظہ ایسا کمزور ہے کہ دو ایک کو چھوڑ کر کوئی نام اور چہرہ یاد نہیں رہا۔اگر نام یاد آتا ہے توصورت ذہن میں نہیں آتی۔کسی کی صورت ذہن میں آتی ہے تو نام یاد نہیں آتا ۔ پائلٹ سکول کے لڑکوں اور مستونگ کرکٹ گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلے والوں میں سے کسی نے شاید مجھے یاد رکھا ہو۔ پھر کراٹے کلب کے لڑکے بھی تھے۔یاد پڑتا ہےاس کلب کے کافی ممبران کا تعلق کلی شیخان سے تھا۔ جن افراد کا آپ نے ذکر کیا عین ممکن ہے ان میں سے کسی سے واقفیت ہو۔ کبھی ملیں تو یاد آئے۔

آپ کے براہوی غزل کے ترجمے کے حوالے سے ایک بات ذہن میں آئی۔ میری نظر میں براہوی کلاسیکل ادب کے رزمیہ کلام (جنگ و جدل سے متعلق کلام ) کا مقام انتہائی بلند ہے۔ وہ اپنے رنگ و آہنگ میں قدیم عربی جنگجوؤں کی شاعری کی یاد دلاتا ہے (براہوی بھی تو شاید صدیوں پہلے سرزمینِ عرب سے یہ یہاں آ کر آباد ہوئے تھے؟)۔ شاعر کی تصویر کشی سے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جنگجو پہلوان اپنے گھوڑوں پر سوار آپ کی نظروں کے سامنے ہی ایک دوسرے کو للکار رہے ہوں۔ ادھر ایک گھوڑا سموں سے چنگاریاں نکالتا گزرا۔ دوسری طرف تلواروں کے ٹکرانے کا شور ایسا کہ زخمیوں کی چیخ و پکار تک سنائی نہ دے۔ میری نظر میں اگر ٹھیک سے ترجمہ کر دیا جائے تو فردوسی کے شاہنامے سی ایک کتاب بن جائے گی ۔

میرے ناقص علم کے مطابق شاید کسی نےبراہوی رزمیہ کلام کے اردوترجمے پر کام بھی کیا ہے۔کسی زمانے میں جنگ اردو کوئٹہ میں کچھ تراجم چھپے تھے۔ اگر اس کام کو ڈھونڈ کر اس کی ترویج کی جا سکے تو براہوی اور اردو ادب دونوں کی بڑی خدمت ہو گی۔ دنیا کو پتہ تو چلے کہ براہوی جیسی چھوٹی سمجھی جانے والی زبان میں کیسے کیسے شاعرگزرے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر قدیم شاعری بھی لا جواب ہے۔ مگر اسے سمجھنے والے شاید اب خال خال ہی رہ گئے ہوں۔ ہمارے قرب میں رہنے والے "نور محمد پروانہ" صاحب قدیم براہوی ادب کو سمجھنے والے چند ایک لوگوں میں سے تھے۔ ان کے بعد کوئی ان جیسا رہا کہ نہیں؟ شاید وہ "آماچ" نام کا ایک رسالہ بھی نکالتے تھے۔ اب بھی نکلتا ہے آماچ؟ رسالے نے "آماچ پہاڑ" بھی یاد دلا دیا۔ اس سال آماچ پر برف پڑی؟ چلتن پر تو ضرور پڑی ہو گی۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ناموں اور چہروں سے متعلق میرا حافظہ ایسا کمزور ہے کہ دو ایک کو چھوڑ کر کوئی نام اور چہرہ یاد نہیں رہا۔اگر نام یاد آتا ہے توصورت ذہن میں نہیں آتی۔کسی کی صورت ذہن میں آتی ہے تو نام یاد نہیں آتا ۔ پائلٹ سکول کے لڑکوں اور مستونگ کرکٹ گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلے والوں میں سے کسی نے شاید مجھے یاد رکھا ہو۔ پھر کراٹے کلب کے لڑکے بھی تھے۔یاد پڑتا ہےاس کلب کے کافی ممبران کا تعلق کلی شیخان سے تھا۔ جن افراد کا آپ نے ذکر کیا عین ممکن ہے ان میں سے کسی سے واقفیت ہو۔ کبھی ملیں تو یاد آئے۔
میں نے میٹرک چونکہ محمد شہی سکول سے حاصل کیا اس لیے پائلٹ سکول سے اتنا تعلق نہیں رہا ہے میرا لیکن میرے کافی سارے دوست پائلٹ سکول سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ ضیاء الرحمن، نیاز، نواز بجلی وغیرہ۔ باقی کرکٹ میں نے باقاعدہ کسی ٹیم کے نہیں ساتھ کھیلا ہوں لیکن کراٹے کلب سے میرا تعلق کافی پرانا ہے۔ پہلے پہل عمران بھائی کے ساتھ کھیلتے تھے۔ بعد میں داؤد بھائی کے ساتھ بھی کھیلنے لگے لیکن جب عید محمد آئے تو پھر اس کے ساتھ اس وقت تک تعلق قائم رکھا جب تک وہ ایران نہ چلا گیا۔ آپ غالباً قصاب گلی یا بابو محلہ میں رہتے تھے کہ نوید بھائی کو نہیں پہچان رہے۔ :)
آپ کے براہوی غزل کے ترجمے کے حوالے سے ایک بات ذہن میں آئی۔ میری نظر میں براہوی کلاسیکل ادب کے رزمیہ کلام (جنگ و جدل سے متعلق کلام ) کا مقام انتہائی بلند ہے۔ وہ اپنے رنگ و آہنگ میں قدیم عربی جنگجوؤں کی شاعری کی یاد دلاتا ہے (براہوی بھی تو شاید صدیوں پہلے سرزمینِ عرب سے یہ یہاں آ کر آباد ہوئے تھے؟)۔ شاعر کی تصویر کشی سے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جنگجو پہلوان اپنے گھوڑوں پر سوار آپ کی نظروں کے سامنے ہی ایک دوسرے کو للکار رہے ہوں۔ ادھر ایک گھوڑا سموں سے چنگاریاں نکالتا گزرا۔ دوسری طرف تلواروں کے ٹکرانے کا شور ایسا کہ زخمیوں کی چیخ و پکار تک سنائی نہ دے۔ میری نظر میں اگر ٹھیک سے ترجمہ کر دیا جائے تو فردوسی کے شاہنامے سی ایک کتاب بن جائے گی ۔
میرے ناقص علم کے مطابق شاید کسی نےبراہوی رزمیہ کلام کے اردوترجمے پر کام بھی کیا ہے۔کسی زمانے میں جنگ اردو کوئٹہ میں کچھ تراجم چھپے تھے۔ اگر اس کام کو ڈھونڈ کر اس کی ترویج کی جا سکے تو براہوی اور اردو ادب دونوں کی بڑی خدمت ہو گی۔ دنیا کو پتہ تو چلے کہ براہوی جیسی چھوٹی سمجھی جانے والی زبان میں کیسے کیسے شاعرگزرے ہیں۔
بھائی میرا تعلق ادب سے بہت کم رہا ہے۔ لیکن تب سے تعلق قائم کیا ہے تو اپنی سی کوشش کرتا رہا ہوں۔ محفل میں بھی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک رزمیہ کلام کا تعلق ہے تو اس معاملے میں حمید عزیز آبادی صاحب ہم سے بہتر طور پر جانتے ہیں۔ اس سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کلام کو محفل کی زینت بنائیں۔
اس کے علاوہ دیگر قدیم شاعری بھی لا جواب ہے۔ مگر اسے سمجھنے والے شاید اب خال خال ہی رہ گئے ہوں۔ ہمارے قرب میں رہنے والے "نور محمد پروانہ" صاحب قدیم براہوی ادب کو سمجھنے والے چند ایک لوگوں میں سے تھے۔ ان کے بعد کوئی ان جیسا رہا کہ نہیں؟ شاید وہ "آماچ" نام کا ایک رسالہ بھی نکالتے تھے۔ اب بھی نکلتا ہے آماچ؟ رسالے نے "آماچ پہاڑ" بھی یاد دلا دیا۔ اس سال آماچ پر برف پڑی؟ چلتن پر تو ضرور پڑی ہو گی۔
ادب اور ادیب کے معاملے میں میرے خیال سے مستونگ کا تعلق کافی پرانا ہے۔ یہاں آپ کو کافی سارے سلجھے اور باشعور ادیب ملیں گے۔
نور محمد پروانہ کو تو "بابائے براہوئی" کہا جاتا ہے۔ اس کے رسالے کا نام "ایلم" ہے۔ جس کی ترویج و اشاعت کا کام آج کل اس کا پوتا سنبھالے ہوئے ہیں۔
شاید آپ کو "جشن آماچ" اور "جشن مستونگ" بھی یاد ہوں گے جو کہ اب خواب و خیال میں بھی نہیں آتے۔ اس سال تو برف باری خاص نہیں ہوئی لیکن پچھلے سال جم کر برف پڑی اور میں نے یہاں محفل میں بھی چند تصویریں شیئر کر دیں۔ جس میں میرے چند دوستوں کی بھی تصاویر ہیں۔ لنک یہ رہا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میں نے میٹرک چونکہ محمد شہی سکول سے حاصل کیا اس لیے پائلٹ سکول سے اتنا تعلق نہیں رہا ہے میرا لیکن میرے کافی سارے دوست پائلٹ سکول سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ ضیاء الرحمن، نیاز، نواز بجلی وغیرہ۔ باقی کرکٹ میں نے باقاعدہ کسی ٹیم کے نہیں ساتھ کھیلا ہوں لیکن کراٹے کلب سے میرا تعلق کافی پرانا ہے۔ پہلے پہل عمران بھائی کے ساتھ کھیلتے تھے۔ بعد میں داؤد بھائی کے ساتھ بھی کھیلنے لگے لیکن جب عید محمد آئے تو پھر اس کے ساتھ اس وقت تک تعلق قائم رکھا جب تک وہ ایران نہ چلا گیا۔ آپ غالباً قصاب گلی یا بابو محلہ میں رہتے تھے کہ نوید بھائی کو نہیں پہچان رہے۔ :)

بھائی میرا تعلق ادب سے بہت کم رہا ہے۔ لیکن تب سے تعلق قائم کیا ہے تو اپنی سی کوشش کرتا رہا ہوں۔ محفل میں بھی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک رزمیہ کلام کا تعلق ہے تو اس معاملے میں حمید عزیز آبادی صاحب ہم سے بہتر طور پر جانتے ہیں۔ اس سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کلام کو محفل کی زینت بنائیں۔

ادب اور ادیب کے معاملے میں میرے خیال سے مستونگ کا تعلق کافی پرانا ہے۔ یہاں آپ کو کافی سارے سلجھے اور باشعور ادیب ملیں گے۔
نور محمد پروانہ کو تو "بابائے براہوئی" کہا جاتا ہے۔ اس کے رسالے کا نام "ایلم" ہے۔ جس کی ترویج و اشاعت کا کام آج کل اس کا پوتا سنبھالے ہوئے ہیں۔
شاید آپ کو "جشن آماچ" اور "جشن مستونگ" بھی یاد ہوں گے جو کہ اب خواب و خیال میں بھی نہیں آتے۔ اس سال تو برف باری خاص نہیں ہوئی لیکن پچھلے سال جم کر برف پڑی اور میں نے یہاں محفل میں بھی چند تصویریں شیئر کر دیں۔ جس میں میرے چند دوستوں کی بھی تصاویر ہیں۔ لنک یہ رہا۔

بالکل بالکل۔ آپ نے یاد دلایا تو خوب یاد آیا۔ یادداشت دھوکا دے گئی۔ رسالے کا نام "ایلم" ہی تھا۔ پروانہ صاحب کا ایک پوتا یا بیٹا "کبیر" تو ہمارے ساتھ ہی پڑھتا تھا۔ نوید نام کے دو لوگ ذہن میں آ رہے ہیں۔ ایک وہ جو کراچی سے آ کر رہنے لگے تھے اور دوسرے غالبا زرخیلان میں رہتے تھے۔ شاید جن کا ذکر آپ کر رہے ہیں ان دونوں میں سے کوئی ہوں! عید محمد سے میری اچھی جان پہچان تھی۔ سارے ازبکوں میں وہ واحد بندہ تھا جسے اچھی خاصی براہوی اور اردو آتی تھی۔ کافی ذہین تھا۔ مگر افسوس مواقع نہ ملنے کے سبب ذہانت ضائع ہوتی رہی۔

برف باری کی تصاویر کمال کی ہیں۔ میں نے تو شدت جذبات میں وہیں ایک تبصرہ بھی لکھ چھوڑا ہے۔ شیئر کرنے کا شکریہ!
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بالکل بالکل۔ آپ نے یاد دلایا تو خوب یاد آیا۔ یادداشت دھوکا دے گئی۔ رسالے کا نام "ایلم" ہی تھا۔ پروانہ صاحب کا ایک پوتا یا بیٹا "کبیر" تو ہمارے ساتھ ہی پڑھتا تھا۔ نوید نام کے دو لوگ ذہن میں آ رہے ہیں۔ ایک وہ جو کراچی سے آ کر رہنے لگے تھے اور دوسرے غالبا زرخیلان میں رہتے تھے۔ شاید جن کا ذکر آپ کر رہے ہیں ان دونوں میں سے کوئی ہوں! عید محمد سے میری اچھی جان پہچان تھی۔ سارے ازبکوں میں وہ واحد بندہ تھا جسے اچھی خاصی براہوی اور اردو آتی تھی۔ کافی ذہین تھا۔ مگر افسوس مواقع نہ ملنے کے سبب ذہانت ضائع ہوتی رہی۔
برف باری کی تصاویر کمال کی ہیں۔ میں نے تو شدت جذبات میں وہیں ایک تبصرہ بھی لکھ چھوڑا ہے۔ شیئر کرنے کا شکریہ!
کبیر، منیر صاحب کا بھانجا ہے جن کا کیسٹ والا دکان آج بھی موجود ہے، اس کا تعلق پروانہ صاحب سے صرف پڑوسی کا تھا۔ پروانہ صاحب کے نواسے مصور استاد حسن (گول کیپر) تو یاد ہوگا۔
عید محمد واقعی بہت مخلص اور مستونگ کی حد تک ازبکوں میں تعلیم یافتہ بندہ تھا۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
واہ ذوالقرنین ایلم نی براہوی اٹی شاعری ایم کیسے آؤ۔ دا نا جند نا شاعری اے یا پین شاعر نا؟؟؟
باز جوان امجد میانداد ایلم! نی تو چھپا رستم پیش تماس۔ کنے شاعری نا الف بے ام بفک۔ دا شاعری بابو نواز نا اے۔:)
(بہت خوب امجد میانداد بھائی! آپ تو چھپے رستم نکلے۔ مجھے شاعری کی الف بے بھی نہیں آتی۔ یہ شاعری بابو نواز کا ہے۔)
 
باز جوان امجد میانداد ایلم! نی تو چھپا رستم پیش تماس۔ کنے شاعری نا الف بے ام بفک۔ دا شاعری بابو نواز نا اے۔:)
(بہت خوب امجد میانداد بھائی! آپ تو چھپے رستم نکلے۔ مجھے شاعری کی الف بے بھی نہیں آتی۔ یہ شاعری بابو نواز کا ہے۔)
دا بعض جوان مس کہ نی مستونگ نا اُس۔
 
Top