براہوئی زبان، تاریخ و جغرافیہ

ذوالقرنین

لائبریرین
براہوئی ادب سے ماخوذ:

براہوئی زبان، تاریخ و جغرافیہ
تحقیق: حاجی عبدالحیات منصور
ترجمہ و ترتیب: ذوالقرنین



1۔۔۔ براہوئی کے نام ور شاعر، ادیب جناب گل بنگلزئی کے مطابق، " براہوئیوں کا تعلق ترکی سے ہے۔ ترکی میں سومیری، سومیری میں ابراہیمی۔ حضرت اسحق و حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اولاد ہیں۔ براہوئیوں نے عراق میں بعض جگہوں پر بادشاہت بھی کی ہیں۔ ایرانیوں کا ہزاروں سال سے ہمسایہ رہے ہیں۔ ترکی بھی ایرانی ہیں، لیکن عرب نہیں ہیں۔ یعنی براہوئی، بلوچ نسل سے نہیں ہے۔"
(بلوچ نسلاً عرب ہیں)
2۔۔۔ روزنامہ سندھی اخبار "ہلال پاکستان" کراچی کے مطابق، براہوئی زبان کا تعلق حضرت نوح علیہ السلام سے ثابت ہوتا ہے۔
3۔۔۔ براہوئی بلوچستان اور سندھ کے علاوہ ایران، افغانستان اور ترکمانستان میں بھی ہیں۔
4۔۔۔ براہوئی زبان کے لفظ "خوم (قوم، قبیلہ)، خدا، خَد (چھاتی)، لُمہ (ماں)، خولُم (گندم) اور کافی سارے الفاظ بعینہ عبرانی زبان میں آج تک موجود ہیں۔
5۔۔۔ امریکہ کے ریڈ انڈینزبراہوئی زبان میں موجود نقطے والا لام "ڷ" کے الفاظ "تی+ڷ( بچھو)، موڷ(دھواں)، خ+ڷ(درد) ، پاڷ(دودھ) اپنے اصل معنی کے ساتھ بولے جاتے ہیں۔
(اس لام کا تلفظ کچھ "ل، ث، ٹ" کو باہم ملا کر ادا کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سندھی میں ایک حرف ن اور ں کو باہم ملا کر ادا کیا جاتا ہے۔)
6۔۔۔ خدمت دین نامی کتاب کے مطابق براہوئی آج سے سو سال پہلے بھی مسلمان تھے۔​
7۔۔۔ مارگیٹرین رپورٹ "اے لنگوئسٹ مشن افغانستان" میں بھی براہوئی زبان کا ذکر موجود ہے۔ یہ رپورٹ 1926ء میں پیش کیا گیا۔
8۔۔۔ محترم بیگ گیگر کی کتاب "بلوچستان نا سیاحت" جو 1887ء میں لندن سے شائع ہوئی، میں بھی براہوئی زبان کا ذکر کیا گیا ہے۔
9۔۔۔ اردو فرہنگ میں براہوئی و بلوچی زبان کا تناسب 33 فیصد اشتراکیت کے ساتھ ہے۔
10۔۔۔ کیمبرج یونیورسٹی میں براہوئی زبان کی ریکارڈنگ 241 واں نمبر پر ہے۔
11۔۔۔ براہوئی قوم کی تاریخ و نام کی وجہ تسمیہ بھی براہوئی زبان کی طرح ماہرین لسانیات کے لیے ایک معمہ ہے۔
12۔۔۔ 1901ء میں براہوئی قوم کی تعداد ہندوستان میں تین لاکھ کے قریب پہنچ چکا تھا۔
13۔۔۔ پاکستان کے پہلے مردم شماری (1951ء) کے مطابق بلوچستان میں براہوی قوم کی تعداد دو لاکھ باسٹھ ہزار چار سو تریسٹھ (262463)تھی۔
14۔۔۔ براہوئی زبان پاکستان کا سب سے قدیم زبان ہے۔
15۔۔۔ براہوئی زبان، دراوڑی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔
16۔۔۔ سر ڈینس برے کے خیال میں براہوئی زبان کا تعلق سندھ تہذیب سے ہے۔ کیونکہ موہن جو دڑو کے رہنے والے تہذیب کا تعلق براہوئی سے ثابت ہو چکا ہے۔
(موہن جو دڑو میں موجود ایک نشان "
123_zps6826691d-1_zpscfd52a3b.jpg
" آج بھی یہاں شادی بیاہ کے موقع پر دیواروں پہ بنائے جاتے ہیں۔)

17۔۔۔ زیادہ تر براہوئی زبان کے تاریخ پر روشنی ڈالنے والے قلمکار و شاعروں کا خیال ہے کہ براہوئی اور بلوچ ایک ہی قوم ہیں۔
18۔۔۔ براہوئی اور بلوچ سینکڑوں سالوں سے ایک جگہ بستے چلے آ رہے ہیں۔
19۔۔۔ براہوئی و بلوچ عربی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا اصل وطن ریگستانِ عرب اور موجودہ بلوچستان ہیں۔
(براہوئی قوم میں ایک قبیلہ آج تک بدوؤں سے متصل "بدوزئی" کے نام سے موجود ہے۔)
20۔۔۔ بہت سے ماہر لسانیات براہوئیوں کو آریہ نسل سے جوڑتے ہیں۔
21۔۔۔ اکثر یہی بات متصور ہے کہ براہوئی نسلا ترکی، ایرانی ہیں اور اپنے آپ کو بلوچ کہتے ہیں۔
22۔۔۔ دسویں صدی کے نام ور مؤرخ ابن حوقل نے براہوئی قوم کو بلوچستان کے سو قبیلوں میں سے ایک وہی قبیلہ کہا ہے جو فارس کے حدود و قیود میں آباد تھے۔
23۔۔۔ پندرہویں صدی عیسوی میں براہوئی و جدگال جنگ عظیم میں براہوئیوں نے جدگال کو شکست دے دی اور جھالاوان میں سوراب اور مشکے میں پہلی بار براہوئی حکومت کی بنیاد رکھی۔
24۔۔۔ آکسفورڈ میں براہوئی زبان کی ریکارڈنگ کے بعد آکسفورڈ کے انچارج ابرٹائن نے کہا تھا کہ " میں بہت خوش ہوں کہ میری زندگی میں دنیا کے قدیم ترین زبانوں میں سے ایک زبان کی ریکارڈنگ ہوئی۔"
25۔۔۔ 1906ء میں انگریزی حکومت نے فوج کے آفیسروں کے لیے براہوئی زبان میں بھی امتحان پاس کرنے کی شرط رکھی تھی۔
26۔۔۔ فرنگی حکومت نے انگریزوں کے لیے براہوئی امتحان پاس کرنے پر سو سے تین سو روپے انعام رکھا تھا۔
27۔۔۔ جب انگریزوں نے 1893ء میں بلوچستان پر قبضہ کیا تو عملی طور پر پہلی بار انہوں نے براہوئی زبان و ادب پر تحقیق کا کام شروع کیا۔
28۔۔۔ براہوئی زبان کے اکثر الفاظ جاندمی ہندوستان کے زبانوں؛ جن کا تعلق دراوڑی نسل سے ہے، سے ملتے ہیں۔ ہندوستان کے یہ زبان تیلگو، تامل، گوٹا، ملیالم وغیرہ ہیں۔
29۔۔۔ انگریزوں کے بیشتر دلائل کے مطابق؛ براہوئی زبان کے الفاظ و تلفظ کے اصول تیلگو، تامل زبان کے الفاظ و تلفظ سے ملتے ہیں۔ اسی لیے براہوئی زبان کو دراوڑی زبان کا ایک شاخ کہا جاتا ہے۔
30۔۔۔ براہوئی زبان و ادب کے تاریخ کے اوپر اردو میں شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب "براہوئی زبان و ادب کی مختصر تاریخ" ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی نے لکھی ہے۔
31۔۔۔ سر ڈینس برے کا خیال ہے کہ جس وقت یونانیوں نے خراسان اور بلوچستان پر قبضہ کیا تو اس وقت براہوئی قبیلہ وادی ہلمند میں رہتے تھے۔ اس علاقے کو یونانیوں نے "برویانان" کا نام دیا۔ جو بدلتے بدلتے براہوئی یا بروہی پڑ گیا۔
 
Top