برائے صلاح:مجھ کو ہوئی اسی سے محبت کمال کی

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:


مجھ کو ہوئی اسی سے محبت کمال کی
نظروں سے کر گئی جو شرارت کمال کی

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیدار میں کروں
کرتا ہے دل مرا یہی حسرت کمال کی

دل دے دیا تجھے تری مسکان پر میں نے
ہوتی ہے دل کی پیار میں قیمت کمال کی

دل کہہ رہا ہے حسن پہ تو جان وار دے
کرتا ہے مجھ کو دل یہ نصیحت کمال کی

تیکھی نظر سے دیکھ کے رخ ہنس کے موڑ لے
کرتا ہے مجھ سے شخص وہ نفرت کمال کی

اس کو دیا گلاب تو بدنام ہو گیا
میری ہوئی ہے شہر میں شہرت کمال کی

آیا نہیں پلٹ کے وہ نکلا مفاد جب
کی اس نے میرے ساتھ سیاست کمال کی

کوئی نہ دل سے پیار کی دولت چرا سکے
میثم فقط ہے پیار کی دولت کمال کی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ایک غزل مکمل ہوتے ہی دوسری تیار! یہ بھی تو عادت کمال کی ہے!
بعد میں غور سے دیکھتا ہوں اسے، بھول جاؤں تو پھر ٹیگ کر دینا
 
دل دے دیا تجھے تری مسکان پر میں نے
ہوتی ہے دل کی پیار میں قیمت کمال کی
میں نے صرف منے تقطیع ہو رہا ہے، جو ٹھیک نہیں۔

دل کہہ رہا ہے حسن پہ تو جان وار دے
کرتا ہے مجھ کو دل یہ نصیحت کمال کی
دنوں مصرعوں میں دل کی تکرار ہے جو اچھی نہیں۔

تیکھی نظر سے دیکھ کے رخ ہنس کے موڑ لے
کرتا ہے مجھ سے شخص وہ نفرت کمال کی
ٹینسسز گڑبڑا رہے ہے۔ دوسرے مصرعے میں زمانہ حال مطلق (present indefinite)۔ پہلا مصرع بھی اسی کے موافق ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں دیکھ کے میں تنافر بھی محسوس ہوتا ہے۔

اس کو دیا گلاب تو بدنام ہو گیا
میری ہوئی ہے شہر میں شہرت کمال کی
بدنام ہو گیا ہوں فقط دے کر ایک پھول
ملتی ہے عاشقی میں بھی شہرت کمال کی

آیا نہیں پلٹ کے وہ نکلا مفاد جب
کی اس نے میرے ساتھ سیاست کمال کی
پہلے مصرعے میں محاورہ درست نہیں۔ کہنا یہ چاہیے کہ جب اس کا مفاد نکل گیا (پورا ہوگیا کہنا زیادہ بہتر رہے گا) تو وہ پلٹ کر نہیں آیا۔ موجودہ بندش میں یہ واضح نہیں ہوتا۔؎

کوئی نہ دل سے پیار کی دولت چرا سکے
میثم فقط ہے پیار کی دولت کمال کی
مقطع مزیدار نہیں۔ ردیف بھی میل نہیں کھاتی، ٹینسسز کا بھی مسئلہ ہے دونوں مصرعوں میں۔ دوبارہ کوشش کریں۔
 

یاسر علی

محفلین
اصلاح کے بعد دوبارہ
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:

مجھ کو ہوئی اسی سے محبت کمال کی
نظروں سے کر گئی جو شرارت کمال کی

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیدار میں کروں
کرتا ہے دل یہی مرا حسرت کمال کی

دل دے دیا ہے میں نے تبسم پہ آپ کے
ہوتی ہے دل کی پیار میں قیمت کمال کی

دل کہہ رہا ہے حسن پہ تو جان وار دے
کرتا یہی ہے مجھ کو نصیحت کمال کی

بدنام ہو گیا ہوں فقط دے کے اس کو پھول
ملتی ہے عاشقی میں بھی شہرت کمال کی

پورا ہوا مفاد تو آیا نہیں وہ پھر
یا
پورا ہوا مفاد تو پلٹا نہیں وہ پھر
کی اس نے میرے ساتھ سیاست کمال کی

اس نے تمام شہر میں رسوا کیا مجھے
کرتا تھا جس کی دل سے میں عزت کمال کی

کھڑکی سے دیکھتا ہے وہ گزروں گلی سے جب
لگتی ہے اس کی یہ مجھے عادت کمال کی

ملتے نہیں ہو پارک میں کیوں ؟مجھ سے آج کل
میثم کی اس نے مجھ سے شکایت کمال کی
یا
میثم کی اس نے آج شکایت کمال کی
 

الف عین

لائبریرین
ردیف ہر جگہ بہت اچھی طرح فٹ نہیں ہو رہی لیکن قبول کی جا سکتی ہے۔
مقطع میں تو ایک 'کی' کی کمی ہے
اس شعر میں
کرتا یہی ہے مجھ کو نصیحت کمال کی
کع
کرتا ہے مجھ کو وہ یہ نصیحت...
کر دو
مفاد والے شعر میں پلٹا والا مصرع بہتر ہے
 
Top