برائے صلاح: قلم کی صورت اپنی جیب میں خنجر لگاتا ہوں

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام
ایک میراتھن غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں ۔ غزل کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں

قلم کی صورت اپنی جیب میں خنجر لگاتا ہوں
سنا ہے شاعری کے نام پر نشتر لگاتا ہوں
یا
کہا جاتا ہے میں لکھتا نہیں، نشتر لگاتا ہوں

ابل پڑتے ہیں بن پوچھے ہی دردِ ہجر کے چشمے
ترے جو وصل کا میں آنکھ میں منظر لگاتا ہوں

اُڑا دیتا ہے پھر قاتل نگاہوں سے وُہ، جب بھی مَیں
اٹھاکرسر،زمیں سے،اپنے کندھے پرلگاتا ہوں

اگر لے نام بھی کوئی بلند آواز میں اس کا
(کیا یہاں بلند کی د اور آواز کے آ کا وصال ہو سکتا ہے اور بلند کا وزن فعو پر ہو گا یا فعول پر؟)
بپا کرتا قیامت ہوں وہیں محشر لگاتا ہوں

میں اپنے پیار کی دیوار میں ہر اینٹ کے بدلے
تِرا چہرہ تِری آنکھیں مرے دلبر لگاتا ہوں

جو آتے راستے میں ہیں تمہارے پاؤں کے نیچے
سمجھ کے حجرِ اسود گھر میں وُہ پتھر لگاتا ہوں

وفا بکتی ، محبت بھی یہاں نیلام ہوتی ہے
بس اتنا پیار ملتا ہے میں جتنا زر لگاتا ہوں

جہاں ہیں بے وفا کرتے وفاداری پہ تقریریں
وہاں پر جا کے میں اس کے لیے منبر لگاتا ہوں

ختم ہوجاتی ہے گنتی،میں جب بھی روح پر اپنی
ترے بخشے ہوئے زخموں پہ جو نمبر لگاتا ہوں

زمیں پر ٹیکتا ہوں سب سے پہلے اپنی پیشانی
یا
خدا سے مانگتا ہوں صرف تجھ کو صرف تجھ کو ہی
میں جب بھی التجاؤں کاکبھی دفتر لگاتا ہوں

کبھی تو ٹوٹ کر آئے گا میرے خواب کا تارہ
نگاہیں آسماں کی ہی طرف شب بھر لگاتا ہوں

کہیں رکتی نہیں وُہ پھر خُدا کے عرش سے پہلے
کسی فریاد کو جب آنسوؤں کے پر لگاتا ہوں

اسے جو دیکھ کر ہو جاتی ہیں ساکت مری آنکھیں
سمجھتا ہے میں آنکھوں میں کوئی پتھر لگاتا ہوں

کبھی تو آ ئے گی آواز اس کی یا کبھی خوشبو
بہت سی کھڑکیاں گھر میں بہت سے در لگاتا ہوں

یہی ہیں میرے حج عمرے ،یہی میری عبادت ہے
تمہارے گھر کے میں یہ سوچ کے چکر لگاتا ہوں

کسی دن تھک کے آئے گا تُومیرے پاس ہی مقبول
میں اپنے ساتھ تیرا اس لیے بستر لگاتا ہوں

سر، الف عین دوبارہ ٹیگ کر رہا ہوں
 
آخری تدوین:
اگر لے نام بھی کوئی بلند آواز میں اس کا
(کیا یہاں بلند کی د اور آواز کے آ کا وصال ہو سکتا ہے اور بلند کا وزن فعو پر ہو گا یا فعول پر؟)
بالکل ہوسکتا ہے... بلکہ اولی یہی ہے کہ د سے ساتھ الف کا وصال ہو، اس سے روانی اور بہتر ہوتی ہے.
 

مقبول

محفلین
آخری تدوین:
قلم کی صورت اپنی جیب میں خنجر لگاتا ہوں
سنا ہے شاعری کے نام پر نشتر لگاتا ہوں
یا
کہا جاتا ہے میں لکھتا نہیں، نشتر لگاتا ہوں
کمر سے خنجر لگانا تو محاورہ سنا ہے ۔۔۔ جیب میں خنجر لگانا میرے لیے نامانوس ہے ۔۔۔ خیر میرے ناقص مطالعے کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔
دوسرا متبادل بہتر ہے، اگرچہ اس سے بہتر گرہ ممکن ہو۔

ابل پڑتے ہیں بن پوچھے ہی دردِ ہجر کے چشمے
ترے جو وصل کا میں آنکھ میں منظر لگاتا ہوں
ترے جو کے بجائے ’’جو تیرے وصل کا ۔۔۔‘‘ بھی تو کہا جاسکتا ہے!!! تاہم آنکھ میں منظر ’’لگانا‘‘ مجھے عجیب سا لگ رہا ہے۔

اُڑا دیتا ہے پھر قاتل نگاہوں سے وُہ، جب بھی مَیں
اٹھاکرسر،زمیں سے،اپنے کندھے پرلگاتا ہوں
غالباً یہاں سر قلم کردینا مراد ہے؟ تاہم اس صورت میں سر گردن پر لگایا جائے گا، نہ کہ کاندھے پر! ۔۔۔ اپنے ہی کاندھے پر سر یا تو بیٹھے بیٹھے سو جانے والا رکھتا ہے یا جس کو گردن کا کوئی عارضہ لاحق ہو وہ۔
دنوں مصرعوں میں غیر ضروری تعقید بھی ہے۔

اگر لے نام بھی کوئی بلند آواز میں اس کا
(کیا یہاں بلند کی د اور آواز کے آ کا وصال ہو سکتا ہے اور بلند کا وزن فعو پر ہو گا یا فعول پر؟)
بپا کرتا قیامت ہوں وہیں محشر لگاتا ہوں
محشر لگانا مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا ۔۔۔ حشر اٹھا دینا، محشر بپا کر دینا وغیرہ تو دیکھا ہے، محشر لگانا؟؟؟

میں اپنے پیار کی دیوار میں ہر اینٹ کے بدلے
تِرا چہرہ تِری آنکھیں مرے دلبر لگاتا ہوں
شاعری میں عشق کے ضمن میں دیوار اٹھانا یا بنانا فاصلے یا دوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پیار کی صرف دیوار کس کام کی؟
پھر دلبر کا ایک ہی چہرہ اور دو ہی آنکھیں ہوں گی ۔۔۔ انہیں ہر اینٹ کے بدلے کیسے لگایا جا سکتا ہے؟

جو آتے راستے میں ہیں تمہارے پاؤں کے نیچے
سمجھ کے حجرِ اسود گھر میں وُہ پتھر لگاتا ہوں
ویسے مجھے ذاتی طور پر اس طرح کی تشبیہات و تعبیرات پسند نہیں ۔۔۔ خیر ۔۔۔ پہلے مصرعے سے با آسانی تعقید دور کی جا سکتی ہے۔ مثلاً
تمہارے پاؤں کے نیچے جو آجاتے ہیں راہوں میں

جہاں ہیں بے وفا کرتے وفاداری پہ تقریریں
وہاں پر جا کے میں اس کے لیے منبر لگاتا ہوں
یہاں بھی پہلا مصرع غیر ضروری تعقید کا شکار ہے۔
جہاں پر بے وفا کرتے ہوں تقریریں وفاؤں پر
میں ہر اس جگہ پر اس کے لیے منبر لگاتا ہوں

ختم ہوجاتی ہے گنتی،میں جب بھی روح پر اپنی
ترے بخشے ہوئے زخموں پہ جو نمبر لگاتا ہوں
ختم کا تلفظ ٹھیک نہیں، ختم میں ت ساکن ہے، مفتوح نہیں۔ نمبر لگانا بھی محض قافیہ پیمائی کی مشق لگ رہی ہے۔

زمیں پر ٹیکتا ہوں سب سے پہلے اپنی پیشانی
یا
خدا سے مانگتا ہوں صرف تجھ کو صرف تجھ کو ہی
میں جب بھی التجاؤں کاکبھی دفتر لگاتا ہوں
التجاؤں کا دفتر کھولا جاتا ہے، لگایا نہیں جاتا۔

کبھی تو ٹوٹ کر آئے گا میرے خواب کا تارہ
نگاہیں آسماں کی ہی طرف شب بھر لگاتا ہوں
نگاہ کرنا یا نگاہ لگانا؟؟؟

کسی دن تھک کے آئے گا تُومیرے پاس ہی مقبول
میں اپنے ساتھ تیرا اس لیے بستر لگاتا ہوں
تو کے بجائے وہ کیوں نہیں؟ ایکسٹرا بستر لگانے سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ کسی خارجی وجود کا انتظار ہے؟
 

مقبول

محفلین
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب

آپ کی تفصیلی رائے اور تجاویز کے لیے شکر گُذار ہوں۔ اپنی غلط سلط اردو پر معافی چاہتا ہوں۔ میں نے جس ماحول میں اردو سیکھی ہے وہاں بس سکول میں ہی پڑھائی اور بولی جاتی تھی اور معیار بھی نہ ہی پوچھیں ۔اب، آپ سب اساتذہ کی رہنمائی میں بہتری لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

کچھ وضاحتیں اور کچھ درستگی آپ کے ملاحظہ کے لیے پیش کر رہا ہوں

کمر سے خنجر لگانا تو محاورہ سنا ہے ۔۔۔ جیب میں خنجر لگانا میرے لیے نامانوس ہے ۔۔۔ خیر میرے ناقص مطالعے کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔
دوسرا متبادل بہتر ہے، اگرچہ اس سے بہتر گرہ ممکن ہو۔
قلم کو خنجر سے تشبیہ ہے ۔ قلم تو شاید جیب میں لگ سکتا ہے
ترے جو کے بجائے ’’جو تیرے وصل کا ۔۔۔‘‘ بھی تو کہا جاسکتا ہے!!! تاہم آنکھ میں منظر ’’لگانا‘‘ مجھے عجیب سا لگ رہا ہے۔
“جو تیرے ۔۔۔” کر دیا ہے ۔ شُکریہ
جہاں تک آنکھ میں منظر لگانے کا تعلق ہے۔ میری سوچ یہ تھی کہ ایک منظر یادداشت میں پہلے سے موجود ہے ۔ اسے آنکھ میں ریوائنڈ کرتا ہوں
غالباً یہاں سر قلم کردینا مراد ہے؟ تاہم اس صورت میں سر گردن پر لگایا جائے گا، نہ کہ کاندھے پر! ۔۔۔ اپنے ہی کاندھے پر سر یا تو بیٹھے بیٹھے سو جانے والا رکھتا ہے یا جس کو گردن کا کوئی عارضہ لاحق ہو وہ۔
دنوں مصرعوں میں غیر ضروری تعقید بھی ہے۔
ہا ہا ہا۔ جناب، اس عمر میں ان دونوں بیماریوں کا امکان موجود رہتا ہے جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ اس لیے خیالات بھی ایسے ہی آتے ہیں۔
میں پہلے “سے سر” کے تناظر سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اب دیکھیے،

وُہ پھر قاتل نگاہوں سے اُڑا دیتا ہے، جب بھی میں
زمیں سے سَر اٹھا کراپنی گردن پر لگاتا ہوں
محشر لگانا مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا ۔۔۔ حشر اٹھا دینا، محشر بپا کر دینا وغیرہ تو دیکھا ہے، محشر لگانا؟؟
سر، لغت کے مطابق محشر کے ایک معنی تو ہنگامہ یا قیامت بپا کرنا دیا ہے۔ دوسرا وہ جگہ یا میدان ہے جہاں حشر بپا ہو گا، عدالت لگے گی۔ اور ہم سنتے بھی رہتے کہ حشر کا میدان لگے گا۔ تو بس اس حوالے سے محشر لگانا استعمال کیا ہے
اعری میں عشق کے ضمن میں دیوار اٹھانا یا بنانا فاصلے یا دوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پیار کی صرف دیوار کس کام کی؟
پھر دلبر کا ایک ہی چہرہ اور دو ہی آنکھیں ہوں گی ۔۔۔ انہیں ہر اینٹ کے بدلے کیسے لگایا جا سکتا ہے؟
اب دیکھیے

میں شہرِ پیار کی ہر اینٹ پر تصویر کی صورت
تِرا چہرہ تِری آنکھیں مرے دلبر لگاتا ہوں
ویسے مجھے ذاتی طور پر اس طرح کی تشبیہات و تعبیرات پسند نہیں ۔۔۔ خیر ۔۔۔ پہلے مصرعے سے با آسانی تعقید دور کی جا سکتی ہے۔ مثلاً
تمہارے پاؤں کے نیچے جو آجاتے ہیں راہوں میں
مجھے بھی لگ رہا تھا کہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے۔ متبادل ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ پہلے مصرعہ میں تعقید دور کرنے ہر شکر گُذار ہوں۔ اب
دیکھیے

تمہارے پاؤں کے نیچے جو آ جاتے ہیں راہوں میں
سمجھ کے میں تبرّک گھر میں وُہ پتھر لگاتا ہوں
یہاں بھی پہلا مصرع غیر ضروری تعقید کا شکار ہے۔
جہاں پر بے وفا کرتے ہوں تقریریں وفاؤں پر
میں ہر اس جگہ پر اس کے لیے منبر لگاتا ہوں
بہت شُکریہ
وزن پورا کرنے کے لیے، “میں ایسی ہر جگہ اس کے۔۔۔۔” کر دیا ہے
ختم کا تلفظ ٹھیک نہیں، ختم میں ت ساکن ہے، مفتوح نہیں۔ نمبر لگانا بھی محض قافیہ پیمائی کی مشق لگ رہی ہے۔
ہو سکتا ہے قافیہ پیمائی لگ رہا ہو لیکن زخم شمار کرنا تو بہت عام اور پرانا موضوع ہے ۔ مجھے لگا شمار کرنا اور نمبرنگ ایک ہی بات ہے تو قافیہ کی مناسبت سے نمبر استعمال کر لیا
لفظ “ختم” کے تلفظ پر میں تو بہت کنفیوز ہوں۔ عروض ویب سائٹ پر اس کے دونوں کوڈ دیے گئے ہیں یعنی وتد مجموع اور وتد مفروق۔ اس کے علاوہ بھی میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ختم کو “مُہر” کے طور پر لیا جائے تو ت ساکن ہو گی اور اگر فعل کے طور پر لیا جائے تو ت پر زبر آئے گی۔ واللّہ اعلم

مصرعہ تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھیے

اُٹھا دیتی ہے گنتی ہاتھ ، جب بھی روح پر اپنی
ترے بخشے ہوئے زخموں پہ میں نمبر لگاتا ہوں

التجاؤں کا دفتر کھولا جاتا ہے، لگایا نہیں جاتا۔
یہ دیکھیے

خدا سے مانگتا ہوں صرف تجھ کو صرف تجھ کو ہی
میں جب بھی اپنا ماتھا اس کی چوکھٹ پر لگاتا ہوں
نگاہ کرنا یا نگاہ لگانا؟؟؟
نگاہیں کو سو نظریں سے بدل دیا ہے

کبھی تو ٹوٹ کر آئے گا میرے خواب کا تارہ
سو نظریں آسماں کی ہی طرف شب بھر لگاتا ہوں
تو کے بجائے وہ کیوں نہیں؟ ایکسٹرا بستر لگانے سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ کسی خارجی وجود کا انتظار ہے؟
سر، میں اپنے آپ سے ہی مخاطب ہوں ۔ میرے بھی دو وجود ہے ایک جسمانی اور ایک روحانی۔ جسمانی تو ایک جگہ ہر رہتا ہے مگر روحانی وجود آوارہ قسم کا ہے۔:) اس کے آرام کو بندوبست کرتا رہتا ہوں:D
 
آخری تدوین:
قلم کو خنجر سے تشبیہ ہے ۔ قلم تو شاید جیب میں لگ سکتا ہے
قلم کی خنجر سے تشبیہ کی علت اس کی کاٹ ہوتی ہے. میری ناچیز رائے میں تو یہ توجیہ مناسب نہیں. واللہ اعلم.

جہاں تک آنکھ میں منظر لگانے کا تعلق ہے۔ میری سوچ یہ تھی کہ ایک منظر یادداشت میں پہلے سے موجود ہے ۔ اسے آنکھ میں ریوائنڈ کرتا ہوں
یہ توجیہ بھی درست معلوم نہیں ہوتی، آپ کے مافی الضمیر تو کوئی بھی مفہوم ہوسکتا ہے. اگر اس کے اظہار کا پیرایہ محاورے کے مطابق نہیں ہوگا تو بیان ناقص مانا جائے گا.

سر، لغت کے مطابق محشر کے ایک معنی تو ہنگامہ یا قیامت بپا کرنا دیا ہے۔ دوسرا وہ جگہ یا میدان ہے جہاں حشر بپا ہو گا، عدالت لگے گی۔ اور ہم سنتے بھی رہتے کہ حشر کا میدان لگے گا۔ تو بس اس حوالے سے محشر لگانا استعمال کیا ہے
میدان لگانے سے محشر لگانے کا جواز کیسے نکل سکتا ہے؟ دونوں الگ الگ محاورے ہیں.

میں شہرِ پیار کی ہر اینٹ پر تصویر کی صورت
تِرا چہرہ تِری آنکھیں مرے دلبر لگاتا ہوں
شہرِ پیار ترکیب درست نہیں. ہندی اور فارسی الفاظ کو کسرۂ اضافت سے نہیں جوڑا جا سکتا. پھر اینٹوں تصویر لگانا یوں لگتا ہے جیسے اشتہاری پمفلٹ لگائے جا رہے ہوں. بہت غیر لطیف بیانیہ لگتا ہے.

ہو سکتا ہے قافیہ پیمائی لگ رہا ہو لیکن زخم شمار کرنا تو بہت عام اور پرانا موضوع ہے ۔ مجھے لگا شمار کرنا اور نمبرنگ ایک ہی بات ہے تو قافیہ کی مناسبت سے نمبر استعمال کر لیا
اعتراض زخم شماری پر نہیں، بلکہ اس کے اظہار کے لیے "نمبر لگانے" پر ہے. بہرحال، یہ محض میری رائے تھی. آپ جیسے مناسب سمجھیں شعر کو برت سکتے ہیں.

لفظ “ختم” کے تلفظ پر میں تو بہت کنفیوز ہوں۔ عروض ویب سائٹ پر اس کے دونوں کوڈ دیے گئے ہیں یعنی وتد مجموع اور وتد مفروق۔ اس کے علاوہ بھی میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ختم کو “مُہر” کے طور پر لیا جائے تو ت ساکن ہو گی اور اگر فعل کے طور پر لیا جائے تو ت پر زبر آئے گی۔ واللّہ اعلم
اس کنفیوژن کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی. کسی بھی معیاری لغت میں دیکھ لیجیے، کہیں بھی ختم تائے مفتوح کے تلفظ پر نہیں ملے گا. ختم بطور فعل کا تلفظ تا کی زبر کے ساتھ جائز ہونا بھی میرے لیے ایک نئی بات ہے.

سر، میں اپنے آپ سے ہی مخاطب ہوں ۔ میرے بھی دو وجود ہے ایک جسمانی اور ایک روحانی۔ جسمانی تو ایک جگہ ہر رہتا ہے مگر روحانی وجود آوارہ قسم کا ہے۔:) اس کے آرام کو بندوبست کرتا رہتا ہوں:D
روحانی وجود کو بستر کی کیونکر حاجت ہے؟؟؟ اور اگر اس بستر لگائے جانے کی کیفیت عرف سے ہٹ کر کچھ ہے تو وہ شعر میں واضح نہیں.
 

مقبول

محفلین
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب

دوبارہ مفصل رائے دینے پر آپ کا بہت شکر گُذار ہوں
ایک گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ میں جب بھی کسی موقع پر کوئی وضاحت پیش کرتا ہوں تو اس کا مقصد بحث کرنا نہیں ہوتا کی یہ میری حیثیت ہی نہیں ہے۔ فقط اپنا خیال پیش کر رہا ہوتا ہوں یا کہیں سے ملی ہوئی کوئی انفارمیشن سامنے رکھ رہا ہو تا ہوں
قلم کی خنجر سے تشبیہ کی علت اس کی کاٹ ہوتی ہے. میری ناچیز رائے میں تو یہ توجیہ مناسب نہیں. واللہ اعلم.
ابھی کچھ اور سوجھ نہیں رہا ہے ۔ اگر اجازت ہو تو فی الحال یہ مطلع رکھ لوں؟

قلم کے نام پر میں جیب میں خنجر لگاتا ہوں
کہا جاتا ہے میں لکھتا نہیں، نشتر لگاتا ہوں

میدان لگانے سے محشر لگانے کا جواز کیسے نکل سکتا ہے؟ دونوں الگ الگ محاورے ہیں
محشر لگانے والے شعر کو نکال دیا ہے

یہ توجیہ بھی درست معلوم نہیں ہوتی، آپ کے مافی الضمیر تو کوئی بھی مفہوم ہوسکتا ہے. اگر اس کے اظہار کا پیرایہ محاورے کے مطابق نہیں ہوگا تو بیان ناقص مانا جائے گا.
اب دیکھیے

ابل پڑتے ہیں بن پوچھے ہی دردِ ہجر کے چشمے
لبوں کو جب بھی تیرے آخری خط پر لگاتا ہوں

شہرِ پیار ترکیب درست نہیں. ہندی اور فارسی الفاظ کو کسرۂ اضافت سے نہیں جوڑا جا سکتا. پھر اینٹوں تصویر لگانا یوں لگتا ہے جیسے اشتہاری پمفلٹ لگائے جا رہے ہوں. بہت غیر لطیف بیانیہ لگتا ہے.
اب دیکھیے

اگر مجھ کو بنانی ہو کبھی تصویر ہرنی کی
تِرا چہرہ تِری آنکھیں مرے دلبر لگاتا ہوں
روحانی وجود کو بستر کی کیونکر حاجت ہے؟؟؟ اور اگر اس بستر لگائے جانے کی کیفیت عرف سے ہٹ کر کچھ ہے تو وہ شعر میں واضح نہیں
اب دیکھیے

میں بد قسمت مسافر ہوں، کوئی منزل نہیں میری
جہاں پر رزق ملتا ہے وہیں بستر لگاتا ہوں
اس کنفیوژن کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی. کسی بھی معیاری لغت میں دیکھ لیجیے، کہیں بھی ختم تائے مفتوح کے تلفظ پر نہیں ملے گا. ختم بطور فعل کا تلفظ تا کی زبر کے ساتھ جائز ہونا بھی میرے لیے ایک نئی بات ہے
کنفیوژن پیدا ہونے کا پسِ منظر یہ ہے کہ میں نے پہلے کسی موقع پر ایک مصرعے میں “ختم” کو مختلف جگہوں پر رکھ کر جب عروض ویب سائٹ پر چیک کیا تو عروض نے اسے دونوں طرح (فاع اور فعو) سے قبول کیا۔ اور عروض پر اس کی تقطیع کے دونوں کوڈ موجود ہیں۔ اس پر میں نے کچھ اور کھوج لگائی تو udb.gov.pk پر موجود لغت میں تو یہ ت ساکن کے ساتھ بتایا گیا ہے جبکہ urduban.com پر دونوں تلفظ بتائے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ ،almaany.com پر عربی سے اردو لغت میں بھی دونوں تلفظ کے ساتھ “ختم” کو لکھا گیا ہے۔ بس اس وجہ سے میں کنفیوز ہو گیا
 
کنفیوژن پیدا ہونے کا پسِ منظر یہ ہے کہ میں نے پہلے کسی موقع پر ایک مصرعے میں “ختم” کو مختلف جگہوں پر رکھ کر جب عروض ویب سائٹ پر چیک کیا تو عروض نے اسے دونوں طرح (فاع اور فعو) سے قبول کیا۔ اور عروض پر اس کی تقطیع کے دونوں کوڈ موجود ہیں۔ اس پر میں نے کچھ اور کھوج لگائی تو udb.gov.pk پر موجود لغت میں تو یہ ت ساکن کے ساتھ بتایا گیا ہے جبکہ urduban.com پر دونوں تلفظ بتائے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ ،almaany.com پر عربی سے اردو لغت میں بھی دونوں تلفظ کے ساتھ “ختم” کو لکھا گیا ہے۔ بس اس وجہ سے میں کنفیوز ہو گیا
عربی لغت کہاں کھول بیٹھے جناب. عربی کا ہر قاعدہ اردو پر لاگو تھوڑی ہوتا ہے!
اردو میں ختم بطور مجرد فعل استعمال ہی کب ہوتا ہے؟ ہمیشہ اسم کیفیت کے طور پر ہی آتا ہے. کیا کبھی یوں کہا جاتا ہے کہ "جلدی سے کھانا ختمو تاکہ ہم چلیں" :)
قاموس المعنی میں تائے مفتوح کے ساتھ یقینا بطور ثلاثی مجرد لکھا ہوگا. خَتَمَ عربی میں تھرڈ پرسن پاسٹ ٹینس کا صیغہ ہے. مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ کی آیت مبارکہ "خَتَمَ الله على قلوبهم ... الخ"
تاہم عربی میں بھی ختم بطور اسم کیفیت تائے ساکن کے ساتھ ہی بولا جاتا ہے جیسے کہ ختم القران وغیرہ.

باقی عروض والوں نے اس کا وزن فعو کیوں رکھا ہوا ہے، اس کا مجھے علم نہیں نہ ہی مجھے urduban.com کی اسنادیت کا اندازہ ہے.
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
عربی لغت کہاں کھول بیٹھے جناب. عربی کا ہر قاعدہ اردو پر لاگو تھوڑی ہوتا ہے!
اردو میں ختم بطور مجرد فعل استعمال ہی کب ہوتا ہے؟ ہمیشہ اسم کیفیت کے طور پر ہی آتا ہے. کبھی یوں کہا جاتا ہے کہ "جلدی سے کھانا ختمو تاکہ ہم چلیں" :)
قاموس المعنی میں تائے مفتوح کے ساتھ یقینا بطور ثلاثی مجرد لکھا ہوگا. خَتَمَ عربی میں تھرڈ پرسن پاسٹ ٹینس کا صیغہ ہے. مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ کی آیت مبارکہ "خَتَمَ الله على قلوبهم ... الخ"
تاہم عربی میں بھی ختم بطور اسم کیفیت تائے ساکن کے ساتھ ہی بولا جاتا ہے جیسے کہ ختم القران وغیرہ.

باقی عروض والوں نے اس کا وزن فعو کیوں رکھا ہوا ہے، اس کا مجھے علم نہیں نہ ہی مجھے urduban.com کی اسنادیت کا اندازہ ہے.

محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب

جناب، اب آپ نے ختم کا تلفظ پکا کر دیا ہے ۔ بہت شُکریہ

یہ فرمائیے کہ کیا اب غزل قابلِ قبول ہو گئی ہے آپ کی نظر میں؟
 
ابل پڑتے ہیں بن پوچھے ہی دردِ ہجر کے چشمے
لبوں کو جب بھی تیرے آخری خط پر لگاتا ہوں

مجھے تمام متبادل اشعار می‍ں بس یہی ٹھیک لگ رہا ہے. مطلع بہت کمزور ہے، اگر فی الحال کوئی متبادل ذہن میں نہیں آتا تو کچھ روز کے لیے مؤخر کر دیں.
 
Top