برائے تنقید و مشورہ "جب پاس ہو تو"

جب پاس ہو تو اُس کے ستم مجھ پہ بے حساب
اور دور ہو تو زندگی بن جائے اک عذاب
ناکامیوں نے سر نہ اُٹھانے دیا کبھی
میرے ہر اک سفر کے تعاقب میں تھے سُراب
سب زخم دل کے دھوئے مئے لالہ فام سے
ٹپکا جو آنکھ سے وہ لہو تھا کہ تھی شراب
یک جان عشق میں ہوئے محبوب اور میں
سوچے سوال اُس نے مرے لب پہ تھے جواب
انسانیت اساس ہو گر تیرے دین کی
پھر دل میں حق تلاش اسی کو بنا کتاب
حرص و ہوس بڑھی تو گئے ٹوٹ ضابطے
پھر کس کو فکر تھی کہ گنہ کیا ہے کیا ثواب
 

الف عین

لائبریرین
واہ، مکمل درست ہے غزل، بس اب دونوں مصرعوں کو دیکھیں۔
پھر دل میں حق تلاش اسی کو بنا کتاب
۔۔تلاش بطور فعل اگر قبول بھی کیا جائے تو بھی ’کتاب بنانا‘ عجیب فعل لگتا ہے۔

حرص و ہوس بڑھی تو گئے ٹوٹ ضابطے
÷÷روانی بہتر ہو سکتی ہے۔ ’گئے ٹوٹ‘ ذرا ناگوار تاثر دیتا ہے۔
جیسے
سارے اصول ٹوٹ گئے، یوں بڑھی ہوس
 
کچھ بہتری کی کوشش کی ہے -
انسانیت اساس ہے گر تیرے دین کی

پھردل میں سچ کوکھوج یہی ہےتری کتاب

حرص و ہوس بڑھی تو گئے ٹوٹ ضابطے

پھرکس کوفکرتھی کہ گنہ کیاہےکیا ثواب
 
معاف کیجئے گا غلطی سے پہلے والا شعر لکھ دیا نئی کوشش کچھ
انسانیت اساس ہے گر تیرے دین کی

پھردل میں سچ کوکھوج یہی ہےتری کتاب

سب ضابطے ہوا ہوئے اتنی بڑھی ہوس

پھرکس کوفکرتھی کہ گنہ کیا ہےکیا ثواب

یوں ہے:
 
Top