برائے اصلاح

شہزاد خاکی

محفلین
کوئی بتائے کہ ہجر و وصال کیا ہے۔۔۔
خواب کے سوا اس کی مثال کیا ہے۔۔

یوں تو لگے اب کے عشق بھی محال
ورنہ یہ عشق بھی ایسا محال کیا ہے

پڑا ہے فٹ پاتھ پہ خود کو لپیٹ کر
تیرے دیوانے کو بستر کا خیال کیا ہے

ضبط وہ کہ تیری چاہت ہی مار ڈالی
صبر وہ کہ اشکوں کی مجال کیا ہے

کیا ستم جسے چاہوں خدا بن بیٹھے
دیکھ اس بندگی پہ میرا حال کیا ہے

ہاتھ آتے تو پوچھ لیتے ستاروں سے
کہ خاکی تیرے مقدر کی چال کیا ہے
شہزاد خاکی
 
Top