برائے اصلاح

ظلم غزہ میں جو برپا ہے
دیکھ کے دل یہ لرز اٹھاہے

پھول سے بچے مسلے جائیں
دیکھ درندے بھی شرمائیں

آنکھ اشکبار نہ ہو تو کیا ہو
سینہ فگار نہ ہو تو کیا ہو


دیکھ سکیں ہم تاب نہیں ہے
تم سہتے ہو جواب نہیں ہے


مشق ستم تم پر ہے جاری
جرات کو ہے سلام تمھاری

تم تو حقدار ہوئے جنت کے
اور اسرائیلی لعنت کے

سب عالم نے چپ سادھی ہے
خاموشی یہ رضامندی ہے

ننگِ آدم ہیں ، وحشی ہیں
ہاں ! ملعون اسرائیلی ہیں

کم سن بچے نہ چھوڑے تم نے
پھول کیاری سے توڑے تم نے

ایک درندہ صفت انساں ہو
بلکہ تم انساں ہی کہاں ہو

ہو پھٹکار تمھارے اوپر
اور ہزار تمھارے اوپر
 

الف عین

لائبریرین
ظلم غزہ میں جو برپا ہے
دیکھ کے دل یہ لرز اٹھاہے
درست
پھول سے بچے مسلے جائیں
دیکھ درندے بھی شرمائیں
جائیں، شرمائیں حال کے لئے یعنی بمعنی جاتے ہیں / جا رہے ہیں قبول کیا جا سکتا ہے لیکن مکمل درست نہیں کہ اس سے تمنائی یا دعائیہ بھی مراد ہو سکتی ہے
آنکھ اشکبار نہ ہو تو کیا ہو
سینہ فگار نہ ہو تو کیا ہو
اشکبار وزن میں نہیں آتا، محض اشبار یا اکبار آ تا ہے
دیکھ سکیں ہم تاب نہیں ہے
تم سہتے ہو جواب نہیں ہے
عجز بیان ہے، خاص کر دوسرے مصرعے میں، کہنا یہ تھا نا کہ تم جو اسے سہ لیتے ہو، اس کا جواب نہیں، اور یہ بھی فوری ظاہر نہیں ہوتا کہ طنزیہ کہا جا رہا ہے یا تعریفی بیان؟ تم کا تخاطب یہاں اسرائیل کے لیے ہے

مشق ستم تم پر ہے جاری
جرات کو ہے سلام تمھاری
یہ خطاب فلسطینیوں کے لئے ہو گیا!
تم تو حقدار ہوئے جنت کے
اور اسرائیلی لعنت کے
ایضاً، عروضی اعتبار سے قافیہ درست نہیں
سب عالم نے چپ سادھی ہے
خاموشی یہ رضامندی ہے
ٹھیک
ننگِ آدم ہیں ، وحشی ہیں
ہاں ! ملعون اسرائیلی ہیں
درست، مگر یہ شعر کسی سے خطاب نہیں
کم سن بچے نہ چھوڑے تم نے
پھول کیاری سے توڑے تم نے
بحر سے خارج، خطاب پھر اسرائیل سے!
ایک درندہ صفت انساں ہو
بلکہ تم انساں ہی کہاں ہو
ایک درندہ.... ایک ہی اسرائیلی تو نہیں ہے، تم تو درندہ.... کر دو تو درست
ہو پھٹکار تمھارے اوپر
اور ہزار تمھارے اوپر
درست، خطاب اسرائیل سے
پوری نظم میں اسرائیل سے ہی خطاب ہو تو بہتر ہے
 
Top