برائے اصلاح

پہلے یہ دل خاک ہوتا ہے
پھر گریباں چاک ہوتا ہے

سو میں پی لیتا ہوں اشکوں کو
بہتا پانی پاک ہوتا ہے

پیاسا مارے دشت میں لاکے
ہجر وہ سفاک ہوتا ہے

مرنا اچھا سوختہ دل کا
جینا المناک ہوتا ہے

جسم بعد از مرگ ہو لیکن
جیتے جی دل خاک ہوتا

عقل سکھلاتی ہے اندیشہ
عشق تو بےباک ہوتا ہے


ٹھوکریں عمران کھانے سے
آدمی چالاک ہوتا ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
لاتن فاعلن فعلن
بحر کے ارکان اس لیے لکھ رہا ہوں کہ یہ غیر معروف بحر ہے۔
اسی لیے روانی بھی محسوس نہیں ہو رہی۔ بہتر ہوتا اسے "فاعلاتن مفاعلن فعلن" ہی کر دیتے۔اب بھی میرے خیال میں آسانی سے اس بحر کو بدلا جا سکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
بحر تو ٹھیک ہے، یہ اچھا کیا کہ افاعیل لکھ دئے، ورنہ مبتدیوں سے تو یہ بھی بعید نہیں کہ بے بحر کلام پر بھی اصلاح کی فرمائش بلکہ زبردستی کریں!
پہلے دونوں شعر درست، بلکہ بہتا پانی پاک والا زبردست شعر کہا ہے، واہ!

پیاسا مارے دشت میں لاکے
ہجر وہ سفاک ہوتا ہے
پہلا مصرع روانی میں بہت خراب ہے، یہ خیال اتنے مختصر الفاظ میں بہت مشکل ہے
دودرا مصرع، سفاک تو ُصفت ہوتی ہے، موصوف "وہ" کون ہے؟، ہاں ہجر ایسا سفاک کہا جا سکتا ہے
مرنا اچھا سوختہ دل کا
جینا المناک ہوتا ہے
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے
جسم بعد از مرگ ہو لیکن
جیتے جی دل خاک ہوتا
اس میں بھی عجز بیان لگتا ہے
 
Top