برائے اصلاح

میرے من کو بھائے گاؤں
اور پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں

چھاؤں ہے ان کی ایسی پیاری
عمر بتادوں بیٹھ کے ساری


شام سویرے پنچھی گائیں
من کو بھائیں، دل کو لبھائیں

پیڑوں پر پھل کی سوغاتیں
اور پرندوں کی باراتیں


چشمے،جھرنے آبِ رواں ہے
دیکھو کیسا خوب سماں ہے


ایسے نطارے کہاں شہروں میں
گرد ،غبار، دھواں شہروں میں

ایک طرف قدرت کی عطا ہے
ایک طرف انساں کی خطا ہے

شور شرابا، آپا دھاپی
شہروں میں ہے نفسا نفسی


گاؤں میں لیکن پیار محبت
بھائی چارہ اور اخوت

ہر مشکل میں ہاتھ بٹائیں
اور خوشی مل جل کے منائیں

بچو! تم کو ہے یہ نصیحت
زندہ رکھنا اپنی ثقافت
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ثقافت جیسا لفظ بچوں کی شاعری میں مشکل لفظ ہے، اس شعر کو بدلو
پیڑوں پر پھل کی سوغاتیں
پھل واحد یہاں درست نہیں لگتا
پرندوں کی براتیں یھی عجیب ہے، اس شعر کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے میرے خیال میں
 
ثقافت جیسا لفظ بچوں کی شاعری میں مشکل لفظ ہے، اس شعر کو بدلو
پیڑوں پر پھل کی سوغاتیں
پھل واحد یہاں درست نہیں لگتا
پرندوں کی براتیں یھی عجیب ہے، اس شعر کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے میرے خیال میں
بہت بہت شکریہ
بہت نوازش

تبدیلی کی بعد دوبارہ پیش کروں گا۔
جزاک اللہ
 
مجھ کو ہے اچھا لگتا گاؤں
اور پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں
چھاؤں میں ان کی جی کرتا ہے
بیٹھ کے ساری عمر بتاؤں



چشمے ،جھرنے، آبِ رواں ہے
نیلا امبر ،صاف سماں ہے
قدرت کی ہے خاص عنایت
راحت کا یاں ہر ساماں ہے


پانی صاف ،ہوا تازہ ہے
فطرت کا ہر ایک مزا ہے
بلبل گائے،گیت سریلے
پھول کےچہرے پہ غازہ ہے


دھند پہاڑوں پر یاں چھائے
قوسِ قزح بھی رنگ دکھائے
ایک خوشی سے جھوم اٹھے دل
پھول پہ تتلی جب منڈلائے


جھیل کا پانی گہرا نیلا
شور کرے جھرنا جوشیلا
دھوپ یہاں نکلے چمکیلی
پھل ہے یہاں ہر ایک رسیلا


شور شرابا آپا دھاپی
شہروں میں ہے نفسا نفسی
کوئی کسی کا دوست نہ ہمدم
سب کو پڑی ہے اپنی اپنی

گاؤں میں لیکن پیار محبت
بھائی چارہ اور اخوت
نقشِ قدم پر چلنا بڑوں کے
بچو! تم کو ہے یہ نصیحت





الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اب تم نے چار چار مصرعوں کے بند بنا دئے! اب پھر سے دیکھ رہا ہوں
مجھ کو ہے اچھا لگتا گاؤں
اور پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں
چھاؤں میں ان کی جی کرتا ہے
بیٹھ کے ساری عمر بتاؤں
تیسرے مصرع کا فاعل گڑبڑا گیا، ان پیڑوں کی طرف جانے والی ضمیر ہے، لیکن اس سے پہلے فاعل کے طور پر یا تو گاؤں ہے یا چھاؤں!
چشمے ،جھرنے، آبِ رواں ہے
نیلا امبر ،صاف سماں ہے
قدرت کی ہے خاص عنایت
راحت کا یاں ہر ساماں ہے
صاف سماں؟ پھر بچوں کی نظم میں "راحت کا ہر ساماں" جیسا ٹکڑا بھی اچھا نہیں لگتا، پہلے بھی آب رواں کے بارے میں سوچا تھا کہ شاید چل جائے گا!

پانی صاف ،ہوا تازہ ہے
فطرت کا ہر ایک مزا ہے
بلبل گائے،گیت سریلے
پھول کےچہرے پہ غازہ ہے
تازہ اور غازہ تو درست قوافی ہیں، لیکن مزا نہیں
غازہ بھی بچوں کے لئے مشکل لفظ ہے
دھند پہاڑوں پر یاں چھائے
قوسِ قزح بھی رنگ دکھائے
ایک خوشی سے جھوم اٹھے دل
پھول پہ تتلی جب منڈلائے
یاں چھائے..طرز بیان کلاسیکی ہے.
... پر چھا جائے
قوس قزح کی جگہ دھنک استعمال کرو
دھنک بھی اپنا رنگ جمائے
جھیل کا پانی گہرا نیلا
شور کرے جھرنا جوشیلا
دھوپ یہاں نکلے چمکیلی
پھل ہے یہاں ہر ایک رسیلا
درست
شور شرابا آپا دھاپی
شہروں میں ہے نفسا نفسی
کوئی کسی کا دوست نہ ہمدم
سب کو پڑی ہے اپنی اپنی
درست
گاؤں میں لیکن پیار محبت
بھائی چارہ اور اخوت
نقشِ قدم پر چلنا بڑوں کے
بچو! تم کو ہے یہ نصیحت

الف عین
اخوت بھی مشکل لفظ ہے، الفت وغیرہ باندھنے کی کوشش کرو
لیکن بچوں کو نصیحت تو بالکل غیر متعلق دی جا رہی ہے!
بھائی چارے کی مثال دی جا سکتی ہے کہ ہر شخص کو چچا ماموں نانا دادا کر کے پکارا جاتا ہے اور بچوں کہو یہی نصیحت کی جائے کہ ایسے ہی رشتے بنائے رکھیں۔
مختصراً یہ کہ بند بنانے کے بعد نظم مزید خراب ہو گئی ہے!
 
اب تم نے چار چار مصرعوں کے بند بنا دئے! اب پھر سے دیکھ رہا ہوں

تیسرے مصرع کا فاعل گڑبڑا گیا، ان پیڑوں کی طرف جانے والی ضمیر ہے، لیکن اس سے پہلے فاعل کے طور پر یا تو گاؤں ہے یا چھاؤں!

صاف سماں؟ پھر بچوں کی نظم میں "راحت کا ہر ساماں" جیسا ٹکڑا بھی اچھا نہیں لگتا، پہلے بھی آب رواں کے بارے میں سوچا تھا کہ شاید چل جائے گا!


تازہ اور غازہ تو درست قوافی ہیں، لیکن مزا نہیں
غازہ بھی بچوں کے لئے مشکل لفظ ہے

یاں چھائے..طرز بیان کلاسیکی ہے.
... پر چھا جائے
قوس قزح کی جگہ دھنک استعمال کرو
دھنک بھی اپنا رنگ جمائے

درست

درست

اخوت بھی مشکل لفظ ہے، الفت وغیرہ باندھنے کی کوشش کرو
لیکن بچوں کو نصیحت تو بالکل غیر متعلق دی جا رہی ہے!
بھائی چارے کی مثال دی جا سکتی ہے کہ ہر شخص کو چچا ماموں نانا دادا کر کے پکارا جاتا ہے اور بچوں کہو یہی نصیحت کی جائے کہ ایسے ہی رشتے بنائے رکھیں۔
مختصراً یہ کہ بند بنانے کے بعد نظم مزید خراب ہو گئی ہے!
بہت بہت شکریہ سر
بہت نوازش

کچھ تبدیلی کی ہے میں نے پھر سے دیکھیے گا ۔
بچوں کو مخاطب نہیں کر رہا اس لیے کچھ الفاظ مشکل بھی ہوں گے تھوڑے بچوں کے لیے کر لیتے ہیں اس کو۔
 
اب تم نے چار چار مصرعوں کے بند بنا دئے! اب پھر سے دیکھ رہا ہوں

تیسرے مصرع کا فاعل گڑبڑا گیا، ان پیڑوں کی طرف جانے والی ضمیر ہے، لیکن اس سے پہلے فاعل کے طور پر یا تو گاؤں ہے یا چھاؤں!

صاف سماں؟ پھر بچوں کی نظم میں "راحت کا ہر ساماں" جیسا ٹکڑا بھی اچھا نہیں لگتا، پہلے بھی آب رواں کے بارے میں سوچا تھا کہ شاید چل جائے گا!


تازہ اور غازہ تو درست قوافی ہیں، لیکن مزا نہیں
غازہ بھی بچوں کے لئے مشکل لفظ ہے

یاں چھائے..طرز بیان کلاسیکی ہے.
... پر چھا جائے
قوس قزح کی جگہ دھنک استعمال کرو
دھنک بھی اپنا رنگ جمائے

درست

درست

اخوت بھی مشکل لفظ ہے، الفت وغیرہ باندھنے کی کوشش کرو
لیکن بچوں کو نصیحت تو بالکل غیر متعلق دی جا رہی ہے!
بھائی چارے کی مثال دی جا سکتی ہے کہ ہر شخص کو چچا ماموں نانا دادا کر کے پکارا جاتا ہے اور بچوں کہو یہی نصیحت کی جائے کہ ایسے ہی رشتے بنائے رکھیں۔
مختصراً یہ کہ بند بنانے کے بعد نظم مزید خراب ہو گئی ہے!
پہلا بند یو ں کر لیا ہے


مجھ کو ہے اچھا لگتا گاؤں
اور پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں
چھاؤں ایسی کہ جی کرتا ہے
بیٹھ کے ساری عمر بتاؤں

دوسرا مصرع تبدیل کیا ہے

چشمے ،جھرنے، آبِ رواں ہے
دیکھو کیسا ،خوب سماں ہے
یا
( سبز بچھونے کا میداں ہے)

اس کا بھی دوسرا مصرع بدلا ہے

آب ہے صاف ،ہوا تازہ ہے
اور ندی کا آوازہ ہے
بلبل گائے،گیت سریلے
پھول کےچہرے پہ غازہ ہے


دھند پہاڑوں پر چھا جائے
(دھنک اپنا رنگ جمائے)

میں اس بحر کا ایک ہی وزن جانتا ہو( فعل فعولن فعلن فعلن)
دھنک والے مصرع کا وزن کیا ہو گا ؟اگر رہنمائی فرما دیں تو بہت نوازش ہو گی۔

آخری بند کچھ یوں کیا ہے۔بچوں کو مخاطب نہیں کر رہا ۔۔۔بچوں بڑوں سب کے لیے ہے۔

گاؤں میں لیکن پیار محبت
بھائی چارہ اور اخوت
دکھ سکھ سارے،سانجھے ہمارے
ہم ہیں شریکِ رنج و راحت

آخر میں ایک شعر کا اور اضافہ کیا ہے۔

کاش! رہے زندہ یہ ثقافت
وقت بگاڑے نہ اس کی صورت
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلا بند یو ں کر لیا ہے


مجھ کو ہے اچھا لگتا گاؤں
اور پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں
چھاؤں ایسی کہ جی کرتا ہے
بیٹھ کے ساری عمر بتاؤں
ایسی چھاؤں کہ جی کرتا ہے
دوسرا مصرع تبدیل کیا ہے

چشمے ،جھرنے، آبِ رواں ہے
دیکھو کیسا ،خوب سماں ہے
یا
( سبز بچھونے کا میداں ہے)
خوب سماں ہے، . اچھا ہے، اسے رکھو
اس کا بھی دوسرا مصرع بدلا ہے

آب ہے صاف ،ہوا تازہ ہے
اور ندی کا آوازہ ہے
بلبل گائے،گیت سریلے
پھول کےچہرے پہ غازہ ہے
پانی صاف، ہوا تازہ ہے
آوازہ کا مطلب آواز نہیں، یہ مصرع بدلو
پھول کے چہرے پر... پہ نہیں
دھند پہاڑوں پر چھا جائے
(دھنک اپنا رنگ جمائے)

میں اس بحر کا ایک ہی وزن جانتا ہو( فعل فعولن فعلن فعلن)
دھنک والے مصرع کا وزن کیا ہو گا ؟اگر رہنمائی فرما دیں تو بہت نوازش ہو گی۔
دھنک.. بے بحر ہے
آخری بند کچھ یوں کیا ہے۔بچوں کو مخاطب نہیں کر رہا ۔۔۔بچوں بڑوں سب کے لیے ہے۔

گاؤں میں لیکن پیار محبت
بھائی چارہ اور اخوت
دکھ سکھ سارے،سانجھے ہمارے
ہم ہیں شریکِ رنج و راحت
ٹھیک ہے
آخر میں ایک شعر کا اور اضافہ کیا ہے۔

کاش! رہے زندہ یہ ثقافت
وقت بگاڑے نہ اس کی صورت
وقت نہ بدلے اس کی صورت
 
ایسی چھاؤں کہ جی کرتا ہے

خوب سماں ہے، . اچھا ہے، اسے رکھو

پانی صاف، ہوا تازہ ہے
آوازہ کا مطلب آواز نہیں، یہ مصرع بدلو
پھول کے چہرے پر... پہ نہیں

دھنک.. بے بحر ہے

ٹھیک ہے

وقت نہ بدلے اس کی صورت
بہت بہت شکریہ سر
بہت نوازش
جزاک اللہ
 
کیا
ایسی چھاؤں کہ جی کرتا ہے

خوب سماں ہے، . اچھا ہے، اسے رکھو

پانی صاف، ہوا تازہ ہے
آوازہ کا مطلب آواز نہیں، یہ مصرع بدلو
پھول کے چہرے پر... پہ نہیں

دھنک.. بے بحر ہے

ٹھیک ہے

وقت نہ بدلے اس کی صورت
اور ندی کا آوازہ ہے
آوازہ کو شور کے معنی میں نہیں لیا جا سکتا؟
 
Top