برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
اُستاد محترم الف عین
محمد احسن سمیع:راحل
سید عاطف علی

آداب۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے۔۔۔۔۔

دلوں پر مردنی چھائی ہے مرجھائی طبیعت ہے
ہے پھیلی یاسیت ہر اِک گلی کوچے میں میت ہے

سفر یہ زندگی کا کس گھڑی تکمیل کو پہنچے
فقط دِن رات ذہن و دل پہ اب چھائی یہ وحشت ہے

فضا بوجھل ہے دل غمگین اور آنکھیں برستی ہیں
خبر آتی ہے رحلت کی تو بڑھتی اور دہشت ہے

سبھی کو کوچ کرنا ہے کہ جب ہو حکم رب صادر
کسی کی بس نہیں چلتی یہی رب کی مشیت ہے

نہ رشتے کام آئیں گے نہ دولت کام آئے گی
کہ ره جائے گا سب پیچھے ہویدا یہ حقیقت ہے

عمل،کردار سے اپنے سنوارو عاقبت اپنی
وگرنہ حشر کے دن ہاتھ آنی صرف ذلت ہے

سحؔر نام و لقب رہ جائے گا، اعمال جائیں گے
یہ پونجی جمع کر لو تم اسی کی کل ضرورت ہے
 
آخری تدوین:
دلوں پر مردنی چھائی ہے مرجھائی طبیعت ہے
ہے پھیلی یاسیت ہر اِک گلی کوچے میں میت ہے
بیٹا میرے خیال میں تو طبیعت اور میت درست قوافی نہیں کیونکہ میت کے درست تلفظ میں یائے مشدد پر کسرہ ہوتا ہے ۔۔۔ یعنی میِّت ۔۔۔ لیکن لغتِ کبیر والوں نے بالفتح بھی لکھا ہے، ہو سکتا ہے دونوں تلفظ قابل قبول ہوں!
معنوی اعتبار سے مسئلہ یہ ہے کہ دونوں مصرعوں میں کم و بیش ایک ہی بات دہرائی گئی ہے، مگر اس کیفیتِ مرگ و یاس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔

سفر یہ زندگی کا کس گھڑی تکمیل کو پہنچے
فقط دِن رات ذہن و دل پہ اب چھائی یہ وحشت ہے
دونوں مصرعوں میں بھرتی کے الفاظ موجود ہیں، جو مصرعوں کو خواہ مخواہ الجھا بھی رہے ہیں۔ شعر کے مضمون کا تقاضا ہے کہ پہلے مصرعے میں کچھ غیر یقینی کا اظہار ہو۔

فضا بوجھل ہے دل غمگین اور آنکھیں برستی ہیں
خبر آتی ہے رحلت کی تو بڑھتی اور دہشت ہے
غمگین کی ن یہاں معلن ہونی چاہیے ورنہ وزن کا مسئلہ ہوگا۔
کس کی رحلت کی خبر؟؟؟

سبھی کو کوچ کرنا ہے کہ جب ہو حکم رب صادر
کسی کی بس نہیں چلتی یہی رب کی مشیت ہے
کسی ’’کا‘‘ بس نہیں چلتا۔۔۔
مگر شعر کمزور ہے ۔۔۔ دونوں مصرعوں کی بنت ڈھیلی لگی۔

عمل،کردار سے اپنے سنوارو عاقبت اپنی
وگرنہ حشر کے دن ہاتھ آنی صرف ذلت ہے
’’ہاتھ آنی‘‘ شاید قابل اعتراض ہو ۔۔۔ استادِ محترم بہتر بتا سکتے ہیں۔

سحؔر نام و لقب رہ جائے گا، اعمال جائیں گے
یہ پونجی جمع کر لو تم اسی کی کل ضرورت ہے
نام و لقب کے بجائے نام و نمود زیادہ مناسب رہتا ۔۔۔ مثلا سحرؔ رہ جائے گا نام و نمود، اعمال جائیں گے
دوسرے یہ کہ کہاں جائیں گے، اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔
کل تو مستقبل کا صیغہ ہے، اس کے ساتھ ہے کے بجائے ہوگا یا ہوگی آئے گا۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
الف عین
محمد احسن سمیع:راحل
آداب ۔۔۔۔۔۔
سر از راہ کرم نظر ثانی فرما دیجیے

دلوں پر مردنی چھائی ہے مرجھائی طبیعت ہے
کورونا کے سبب ہر اِک گلی کوچے میں میت ہے

ہے سب سے قیمتی شئے زندگی پھر بھی یہ ارزانی؟
اس ارزانی سے ذہن و دل پہ چھائی ایک وحشت ہے
يا
کہ اس کی بے ثباتی سے پریشاں اپنی حالت ہے

فضا بوجھل ہے دل مغموم اور آنکھیں برستی ہیں
کہ گردو پیش کے منظر سے بڑھتی اور دہشت ہے

سبھی کو کوچ کرنا ہے کہ جب ہو حکم رب صادر
کسی کا بس نہیں چلتا یہی رب کی مشیت ہے

نہ رشتے کام آئیں گے نہ دولت کام آئے گی
کہ ره جائے گا سب پیچھے ہویدا یہ حقیقت ہے

عمل،کردار سے اپنے سنوارو عاقبت اپنی
وگرنہ حشر کے دن ہاتھ آنی صرف ذلت ہے

سحؔر رہ جائے گا نام و نمود، اعمال جائیں گے
یا
سحر نام و نسب رہ جائے گا اعمال جائیں گے
یہ پونجی جمع کر لو تم اسی کی کل ضرورت ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
دلوں پر مردنی چھائی ہے مرجھائی طبیعت ہے
کورونا کے سبب ہر اِک گلی کوچے میں میت ہے
کس کے دلوں پر؟

ہے سب سے قیمتی شئے زندگی پھر بھی یہ ارزانی؟
اس ارزانی سے ذہن و دل پہ چھائی ایک وحشت ہے
يا
کہ اس کی بے ثباتی سے پریشاں اپنی حالت ہے
... پہلا متبادل بہتر ہے، لیکن پہلے مصرع میں زندگی کی ارزانی کے مفہوم والے الفاظ لاؤ، فی الحال تو ٹماٹروں کی ارزانی کا بھی سوچا جا سکتا ہے!

فضا بوجھل ہے دل مغموم اور آنکھیں برستی ہیں
کہ گردو پیش کے منظر سے بڑھتی اور دہشت ہے
.. الفاظ میں ہر دل مغموم ہے، ہر آنکھ برستی ہے وغیرہ کہا جائے ورنہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جس کا دل؟

سبھی کو کوچ کرنا ہے کہ جب ہو حکم رب صادر
کسی کا بس نہیں چلتا یہی رب کی مشیت ہے
.. ٹھیک

نہ رشتے کام آئیں گے نہ دولت کام آئے گی
کہ ره جائے گا سب پیچھے ہویدا یہ حقیقت ہے

عمل،کردار سے اپنے سنوارو عاقبت اپنی
وگرنہ حشر کے دن ہاتھ آنی صرف ذلت ہے
پہلا مصرع پسند نہیں آیا، نیک اعمال کہنا کافی یے

سحؔر رہ جائے گا نام و نمود، اعمال جائیں گے
یا
سحر نام و نسب رہ جائے گا اعمال جائیں گے
یہ پونجی جمع کر و تم اسی کی کل ضرورت ہے
درست
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
الف عین

سر ایک بار پھر دیکھ لیجیے۔

اور آپ نے یہ نہیں بتایا کہ مقطع کے مصرعہ اولی کے لئے کون سا متبادل زیادہ مناسب ہے۔

ہے محشر کا سا عالم اور پریشانی میں خلقت ہے
کورونا کے سبب ہر اِک گلی کوچے میں میت ہے

ہے سہمی زندگی خود دیکھ کر اپنی زبوں حالی
حکومت موت کی ہے ہر بشر پر اس کی ہیبت ہے

فضا بوجھل ہے، ہر دل مضمحل، آنکھیں برستی ہیں
کہ گردو پیش کے منظر سے بڑھتی اور دہشت ہے

سبھی کو کوچ کرنا ہے کہ جب ہو حکم رب صادر
کسی کا بس نہیں چلتا یہی رب کی مشیت ہے

نہ رشتے کام آئیں گے نہ دولت کام آئے گی
کہ ره جائے گا سب پیچھے ہویدا یہ حقیقت ہے

چلو تم نیک رستے پر سنوارو عاقبت اپنی
وگرنہ حشر کے دن ہاتھ آنی صرف ذلت ہے

سحؔر نام و نسب رہ جائے گا، اعمال جائیں گے
یہ پونجی جمع کر لو تم اسی کی کل ضرورت ہے
 
آخری تدوین:
Top