برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین
محمد احسن سمیع:راحل
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی

آداب ۔۔۔۔۔

آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے___



آنکھوں نے کبھی میرے یہ منظر نہیں دیکھا
گرتا ہوا ندی میں سمندر نہیں دیکھا

آئے تھے ابھی اور ابھی جانے لگے ہیں؟
میں نے تو ابھی آپ کو جی بھر نہیں دیکھا

پل بھر میں وہ قاتل ہے تو پل بھر میں مسیحا
اُس جیسا عجب میں نے ستم گر نہیں دیکھا

ہے شاہ اگر کوئی تو ہے کوئی گداگر
ہر شخص کا اک جیسا مقدر نہیں دیکھا

انجم جو تکا کرتا ہے حسرت سے زمیں کو
اُس نے کبھی دھرتی پہ اتر کر نہیں دیکھا

معلوم کہاں تم کو کہ دکھ کہتے ہیں کس کو
تم نے کبھی غربت میں جو جی کر نہیں دیکھا
 

الف عین

لائبریرین
باقی غزل تو درست ہے بس
انجم جو تکا کرتا ہے حسرت سے زمیں کو
اُس نے کبھی دھرتی پہ اتر کر نہیں دیکھا
... انجم لفظ کھٹک رہا ہے۔ کوشش یہ کرنا چاہتے کہ شعر میں ایک ہی قسم کے الفاظ ہوں۔ ہندی/ہندوستانی کے ہوں تو ایک آدھ عربی فارسی کا لفظ عجب پیدا کر دیتا ہے۔ یہاں تکا کے ساتھ انجم عجیب لگ رہا ہے۔ پھر کیا ایک ہی تارہ؟ 'یہ چاند' کر دیں تو؟

معلوم کہاں تم کو کہ دکھ کہتے ہیں کس کو
تم نے کبھی غربت میں جو جی کر نہیں دیکھا
اس کے دونوں مصرعوں میں تنافر ہے۔ کو کہ اور جو جی میں۔ انہیں بدل دو
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین
محمد احسن سمیع:راحل
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی

آنکھوں نے کبھی میرے یہ منظر نہیں دیکھا
گرتا ہوا ندی میں سمندر نہیں دیکھا

آئے تھے ابھی اور ابھی جانے لگے ہیں؟
میں نے تو ابھی آپ کو جی بھر نہیں دیکھا

پل بھر میں وہ قاتل ہے تو پل بھر میں مسیحا
اُس جیسا عجب میں نے ستم گر نہیں دیکھا

ہے شاہ اگر کوئی تو ہے کوئی گداگر
ہر شخص کا اک جیسا مقدر نہیں دیکھا

انجم جو تکا کرتا ہے حسرت سے زمیں کو
اُس نے کبھی دھرتی پہ اتر کر نہیں دیکھا

معلوم کہاں تم کو کہ دکھ کہتے ہیں کس کو
تم نے کبھی غربت میں جو جی کر نہیں دیکھا

محمل ابراہیم ، اچھی کاوش ہے ۔ آپ کو شاعری کا شوق ہے اور اکثر روایتی غزلیہ مضامین باندھنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ چونکہ آپ نو آموزی کے دور سے گزر رہی ہیں اس لئے ایک چھوٹا سا نکتہ میں بھی آپ کی رہنمائی کے لئے گوش گزار کرتا ہوں ۔ قافیے یا ردیف کو نبھانے یا وزن پورا کرنے کی خاطر اپنی طرف سے کبھی کوئی لفظ یا محاورہ گھڑ کر استعمال مت کریں ۔ جو زبان آپ اور میں اور ہم سب معیاری شاعری اور نثر میں پڑھتے ہیں صرف اور صرف اُسی زبان کو شعر میں استعمال کریں ۔ اسی طرح سے الفاظ کا درست محلِ سیکھیں گی ۔ محاوروں اور روز مرہ کو اسی طرح برتیں جیسا کہ برتا جاتا ہے ۔ اس شعر کو دیکھئے:
آئے تھے ابھی اور ابھی جانے لگے ہیں؟
میں نے تو ابھی آپ کو جی بھر نہیں دیکھا
درست روزمرہ "جی بھرکر" دیکھنا یا کھانا یا پینا وغیرہ ہے ۔ قافیے کی خاطر اسے قتل نہیں کیا جاسکتا ۔

ویسے اس غزل کے مطلع کا مطلب کیا ہے ؟ !
آنکھوں نے کبھی میری یہ منظر نہیں دیکھا
گرتا ہوا ندی میں سمندر نہیں دیکھا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
محمل ابراہیم ، اچھی کاوش ہے ۔ آپ کو شاعری کا شوق ہے اور اکثر روایتی غزلیہ مضامین باندھنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ چونکہ آپ نو آموزی کے دور سے گزر رہی ہیں اس لئے ایک چھوٹا سا نکتہ میں بھی آپ کی رہنمائی کے لئے گوش گزار کرتا ہوں ۔ قافیے یا ردیف کو نبھانے یا وزن پورا کرنے کی خاطر اپنی طرف سے کبھی کوئی لفظ یا محاورہ گھڑ کر استعمال مت کریں ۔ جو زبان آپ اور میں اور ہم سب معیاری شاعری اور نثر میں پڑھتے ہیں صرف اور صرف اُسی زبان کو شعر میں استعمال کریں ۔ اسی طرح سے الفاظ کا درست محلِ سیکھیں گی ۔ محاوروں اور روز مرہ کو اسی طرح برتیں جیسا کہ برتا جاتا ہے ۔ اس شعر کو دیکھئے:
آئے تھے ابھی اور ابھی جانے لگے ہیں؟
میں نے تو ابھی آپ کو جی بھر نہیں دیکھا
درست روزمرہ "جی بھرکر" دیکھنا یا کھانا یا پینا وغیرہ ہے ۔ قافیے کی خاطر اسے قتل نہیں کیا جاسکتا ۔

ویسے اس غزل کے مطلع کا مطلب کیا ہے ؟ !
آنکھوں نے کبھی میری یہ منظر نہیں دیکھا
گرتا ہوا ندی میں سمندر نہیں دیکھا

شکریہ سر

مطلع یونیورسل فیکٹ ہے :ROFLMAO:
با ظرف انسان کبھی کم ظرف انسان کے سامنے جھکتا نہیں۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شکریہ سر

مطلع یونیورسل فیکٹ ہے :ROFLMAO:
با ظرف انسان کبھی کم ظرف انسان کے سامنے جھکتا نہیں۔۔
جبکہ " یونیورسل فیکٹ" تو اس کے برعکس ہے ۔ یعنی باظرف انسان جھک جاتا ہے ،کم ظرف نہیں جھکتا ۔:):):)
ویسے آپ کہہ رہی ہیں تو مان لیتے ہیں ۔ ایسا ہی ہوتا ہوگا ۔:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہاں تو لفظ جھکنے کی دو تعبیرات ہو گئیں ۔ جو کوئی بظاہر کسی کے سامنے جھک جاتا ہے وہ حقیقت میں کسی کو جھکا دیتا ہے۔
جیسے جو ایک کی طرف سے 6 ہے وہی دوسرے کی طرف سے 9 ہے۔:cowboy1:
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین
محمد احسن سمیع: راحل
سید عاطف علی

آداب

آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے _____

آنکھوں نے کبھی میری یہ منظر نہیں دیکھا
گرتا ہوا ندی میں سمندر نہیں دیکھا

دی لاکھ صدائیں مُجھے اُس شخص نے لیکن
یک بار بھی میں نے اسے مڑ کر نہیں دیکھا

پل بھر میں وہ قاتل ہے تو پل بھر میں مسیحا
اُس جیسا عجب میں نے ستم گر نہیں دیکھا

ہے شاہ اگر کوئی تو ہے کوئی گداگر
ہر شخص کا اک جیسا مقدر نہیں دیکھا

چندا جو تکا کرتا ہے حسرت سے زمیں کو
اُس نے کبھی دھرتی پہ اتر کر نہیں دیکھا

معلوم کہاں تم کو مرے درد کی شدت
تم نے کبھی افلاس میں جی کر نہیں دیکھا

خنجر ہو کہ تلوار سبھی رہ گئے پیچھے
الفاظ سے بڑھ کر کوئی نشتر نہیں دیکھا

کنکر مجھے دکھلا کے وہ کہتا تھا گہر ہے
اُس شخص نے شاید کبھی گوہر نہیں دیکھا
 
آخری تدوین:
Top