برائے اصلاح

الف عین صاحب
عظیم صاحب





مرنے کا واقعہ بھی عجیب و غریب تھا
مارا ہے اس نے مجھ کو جو میرا طبیب تھا

کہتا تو کہتا کون مرے دل کا ماجرا
بس ایک دیدہ تر تھا جو میرا خطیب تھا


کیا بدلا؟ کیا ملا ؟جو حکومت بدل گئی
جو آج ہے غریب وہ کل بھی غریب تھا


کہنے کا تو قرینہ مجھے آتا تھا مگر
میں چپ تھا اس لیے مجھے پاس-حبیب تھا


لب تو سلے رہے سر-محفل مرے مگر
مایوس چہرہ ہی مرے غم کا نقیب تھا

مشکوک شہر سارا مجھے لگتا تھا مگر
قاتل وہ شخص نکلا جو دل کے قریب تھا


اک چشم-نرگسی نے مجھے کیا بنا دیا
ورنہ نہ ہی خطیب نہ ہی میں ادیب تھا


عابد علی خاکسار
 

الف عین

لائبریرین
مرنے کا واقعہ بھی عجیب و غریب تھا
مارا ہے اس نے مجھ کو جو میرا طبیب تھا
...میرے مرنے کا.. کہا جائے تو بات واضح ہو
مرنے کا واقعہ بھی مرا کیا عجیب تھا
کیا جا سکتا ہے

کہتا تو کہتا کون مرے دل کا ماجرا
بس ایک دیدہ تر تھا جو میرا خطیب تھا
... محض دیدہ بحر میں آتا ہے جس سے واضح نہیں ہوتی بات، دیدۂ تر لانے کی کوشش کریں۔ spokesman کے لیے خطیب بھی اچھا لفظ نہیں

کیا بدلا؟ کیا ملا ؟جو حکومت بدل گئی
جو آج ہے غریب وہ کل بھی غریب تھا
.. ٹھیک

کہنے کا تو قرینہ مجھے آتا تھا مگر
میں چپ تھا اس لیے مجھے پاس-حبیب تھا
... دوسرے مصرعے میں 'کہ' کی کمی کے باعث عجز بیان ہے، پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے، طویل 'تو' اور قرینہ کی ہ کے اسقاط کی وجہ سے

لب تو سلے رہے سر-محفل مرے مگر
مایوس چہرہ ہی مرے غم کا نقیب تھا
.. نقیب قافیہ ہی اوپر خطیب کی جگہ بہتر ہے
رخ تھا اداس میرا، سو غم کا.... یا اس قسم کا کوئی مصرع لگاؤ
مشکوک شہر سارا مجھے لگتا تھا مگر
قاتل وہ شخص نکلا جو دل کے قریب تھا
... سارا شہر کہنے میں کیا حرج ہے؟

اک چشم-نرگسی نے مجھے کیا بنا دیا
ورنہ نہ ہی خطیب نہ ہی میں ادیب تھا
.. دوسرا مصرع بدلو، جیسے
شاعر ہی تھا میں ورنہ، نہ کوئی ادیب تھا
 
مرنے کا واقعہ بھی عجیب و غریب تھا
مارا ہے اس نے مجھ کو جو میرا طبیب تھا
...میرے مرنے کا.. کہا جائے تو بات واضح ہو
مرنے کا واقعہ بھی مرا کیا عجیب تھا
کیا جا سکتا ہے


کہتا تو کہتا کون مرے دل کا ماجرا
بس ایک دیدہ تر تھا جو میرا خطیب تھا
... محض دیدہ بحر میں آتا ہے جس سے واضح نہیں ہوتی بات، دیدۂ تر لانے کی کوشش کریں۔ spokesman کے لیے خطیب بھی اچھا لفظ نہیں

کیا بدلا؟ کیا ملا ؟جو حکومت بدل گئی
جو آج ہے غریب وہ کل بھی غریب تھا
.. ٹھیک

کہنے کا تو قرینہ مجھے آتا تھا مگر
میں چپ تھا اس لیے مجھے پاس-حبیب تھا
... دوسرے مصرعے میں 'کہ' کی کمی کے باعث عجز بیان ہے، پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے، طویل 'تو' اور قرینہ کی ہ کے اسقاط کی وجہ سے

لب تو سلے رہے سر-محفل مرے مگر
مایوس چہرہ ہی مرے غم کا نقیب تھا
.. نقیب قافیہ ہی اوپر خطیب کی جگہ بہتر ہے
رخ تھا اداس میرا، سو غم کا.... یا اس قسم کا کوئی مصرع لگاؤ
مشکوک شہر سارا مجھے لگتا تھا مگر
قاتل وہ شخص نکلا جو دل کے قریب تھا
... سارا شہر کہنے میں کیا حرج ہے؟

اک چشم-نرگسی نے مجھے کیا بنا دیا
ورنہ نہ ہی خطیب نہ ہی میں ادیب تھا
.. دوسرا مصرع بدلو، جیسے
شاعر ہی تھا میں ورنہ، نہ کوئی ادیب تھا
بہت نوازش سر۔۔۔ جزاک اللہ
 
Top