یہ قد و قامت یہ خدوخال اور گیسوئے تابدار دی ہے
تمھاری صورت میں گویا قدرت نے اک قیامت اتار دی ہے

گھنی سیاہی جو رات کی ہے تمھاری زلفوں کی ہے عنایت
تمھارے گالوں نے چاند تاروں کو روشنی کچھ ادھار دی ہے

تمھارے ہونٹوں کی دلکشی جیسی بات اس میں ذرا نہیں ہے
اگرچہ قدرت نے نازکی تو کلی کو بھی بے شمار دی ہے

وہ مسکرانا وہ زلفِ جاناں وہ عارض و لب وہ سؤ ادائیں
اور اس طرف ایک خستہ دل تھا سو جنگ ہم نے تو ہار دی ہے

کسی سے بغض و عناد رکھ کر کیوں اپنا خوں خود جلا رہے ہو
ہنسی خوشی میں گزار لو اُس نے زندگی ایک بار دی ہے

غریب خانے پہ اعلی حضرت کی بعد مدت ہوئی ہے آمد
خزاں کا عالم تھا آپ نے آ کے اس چمن کو بہار دی ہے
 
Top