برائے اصلاح

خصوصاً "نا" کے استعمال کے بارے میں رہنمائی فرما دیں ۔ یہ استعمال قابلِ قبول ہے؟

زندگی جسکو کہیں یہ زندگی وہ نا رہی
تم سے جو پہلے تھی ہم کو دل لگی وہ نا رہی

ہاں تعلق اب بھی ہے اے دوست لیکن سچ کہوں
دل یہ کہتا ہے کہ اپنی دوستی وہ نا رہی

پھر فریبِ عشق میں آ جائیں ایسا بھی نہیں
جو ہوا کرتی تھی آگے بے خودی وہ نا رہی

تیرے ہونے سے ہی ساری رونقیں تھیں بزم میں
تم گئے تو پھر دیوں میں روشنی وہ نا رہی

ہاں ہمارے دل میں ذوقِ عاشقی اب وہ نہیں
آپ میں بھی تھی جو پہلے سادگی وہ نا رہی

وہ پرانی بات تیرے میکدے میں اب کہاں
جام اور ساقی تو ہیں ساقی گری وہ نا رہی

شان قاصد سے خبر سن کر مرا دل جل گیا
اِس میں جو اک آرزوئے وصل تھی وہ نا رہی
 
تم گئے تو پھر دیوں میں روشنی وہ نا رہی

اس مصرع میں "تو گیا تو" کردیجیے

نا رہی درست نہیں کیونکہ یہاں نہ رہی کا محل ہے۔ پوری غزل میں "وہ نارہی" کی جگہ "اب وہ نہیں" کردیجیے جیسے آپ نے اس مصرع میں استعمال کیا ہے۔
ہاں ہمارے دل میں ذوقِ عاشقی اب وہ نہیں
 

الف عین

لائبریرین
وہ اب نہیں یا اب وہ نہیں ردیف کے ساتھ درست ہو جائے گی عزل۔ ایک دو اشعار کے اولی مصرع میں بھی نہیں پر اختتام ہے، ان کو بدلنا پڑے گا
تیرے ہونے سے ہی ساری رونقیں تھیں بزم میں
تم گئے تو پھر دیوں میں روشنی وہ نا رہی
تیرے کے ساتھ تم... شتر گربہ ہے
 
وہ اب نہیں یا اب وہ نہیں ردیف کے ساتھ درست ہو جائے گی عزل۔ ایک دو اشعار کے اولی مصرع میں بھی نہیں پر اختتام ہے، ان کو بدلنا پڑے گا
تیرے ہونے سے ہی ساری رونقیں تھیں بزم میں
تم گئے تو پھر دیوں میں روشنی وہ نا رہی
تیرے کے ساتھ تم... شتر گربہ ہے
بہت نوازش
 
Top