سید احسان

محفلین
شاعر “ ظفر اقبال “
طرح مصرع “ بنائے ابر و ہوا پر مکاں بناتے ہیں” پر طبع آزمائی


خیال یار کا ہم آسماں بناتے ہیں
“بنائے ابر و ہوا پر مکاں بناتے ہیں”

یہ زخم زخم بدن ، تار تار ہو جائے
لہو کشید کے ہم داستاں بناتے ہیں

جہاں خراج میسر ہو چیرہ دستی کا
اسی دیار میں اب آشیاں بناتے ہیں

ہم ایسے بگڑے ہوؤں کا ٹھکانا کیا ہو گا
جو اضطراب بھرا اک گمان بناتے ہیں

جو ایک بار محبت سے ہو گئے مایوس
دوبارہ دل میں جگہ وہ کہاں بناتے ہیں

سید احسان الحق خورشید آباد آزاد کشمیر
 

الف عین

لائبریرین
یہ زخم زخم بدن ، تار تار ہو جائے
لہو کشید کے ہم داستاں بناتے ہیں
... لہو کشید کر 'کے' درست محاورہ ہو گا

جہاں خراج میسر ہو چیرہ دستی کا
اسی دیار میں اب آشیاں بناتے ہیں
.. یہ شعر واضح نہیں ہوا
باقی اشعار درست ہیں
 

سید احسان

محفلین
یہ زخم زخم بدن ، تار تار ہو جائے
لہو کشید کے ہم داستاں بناتے ہیں
... لہو کشید کر 'کے' درست محاورہ ہو گا

جہاں خراج میسر ہو چیرہ دستی کا
اسی دیار میں اب آشیاں بناتے ہیں
.. یہ شعر واضح نہیں ہوا
باقی اشعار درست ہیں
نوزش اور کرم فرمائی میرے استاد کی۔
تشکر
سر اگر یوں کہا جائے کہ

”جہاں علاج میسر ہو چیرہ دستی کا “

تو ٹھیک رہے گا؟؟ مہربانی فرمائیں
 

سید احسان

محفلین
یہ زخم زخم بدن ، تار تار ہو جائے
لہو کشید کے ہم داستاں بناتے ہیں
... لہو کشید کر 'کے' درست محاورہ ہو گا

جہاں خراج میسر ہو چیرہ دستی کا
اسی دیار میں اب آشیاں بناتے ہیں
.. یہ شعر واضح نہیں ہوا
باقی اشعار درست ہیں

اور

یہ زخم زار بدن تار تار ہو جائے

یہ درست ہو گا کیا؟؟
 

الف عین

لائبریرین
یہ زخم زخم بدن والا مصرع بہت اچھا ہے، اس شعر میں بھی دوسرے مصرع پر اعتراض کیا تھا کہ کشید کرنا محاورہ ہے۔ کشیدنا نہیں جس سے 'کشید کے' بنایا جا سکے
چیرہ دستی والے شعر میں بھی ظلم کا علاج سمجھ میں آتا ہے نہ خراج، اور اس پر آشیاں بنانے سے تعلق؟
 

سید احسان

محفلین
یہ زخم زخم بدن والا مصرع بہت اچھا ہے، اس شعر میں بھی دوسرے مصرع پر اعتراض کیا تھا کہ کشید کرنا محاورہ ہے۔ کشیدنا نہیں جس سے 'کشید کے' بنایا جا سکے
چیرہ دستی والے شعر میں بھی ظلم کا علاج سمجھ میں آتا ہے نہ خراج، اور اس پر آشیاں بنانے سے تعلق؟
بہت شکریہ سر۔ سمجھا ہوں درستی ہو گی ان شا اللہ
 
Top