برائے اصلاح

اب نہ کچھ اور تمنا کیجے
خود کو اب اور نہ رسوا کیجے

شہر ہرگز یہ نہیں ہے میرا
یاں نہ الفت کا تقاضا کیجے

آپ کہہ کر نہ پکارو ہم کو
نام سے ہم کو پکارا کیجے

ہم کو عادت ہی نہیں ہنسنے کی
آپ بس ہم کو رلایا کیجے

ہم بھی انسان ہیں جیسے ہیں آپ
روٹھیں ہم بھی تو منایا کیجے

ہم بھی خود سے ہیں ذرا دور کہیں
آپ بھی ہم سے کنارا کیجے

ہم نے کیوں آپ سے الفت رکھی
آپ اب ہم کو ستایا کیجے

بھر گئے زخم ہمارے شاید
ہم پہ کچھ ظلم دوبارہ کیجے

مسئلہ یہ تو ذرا ذاتی ہے
یوں نہ سرعام تماشا کیجے

جس سے وابستہ ہوں خوشیاں ساری
وہ دغا باز ہو تو کیا کیجے

ہم نے خود اپنا بھروسہ توڑا
اور اب کس پہ بھروسہ کیجے

تھک چکے ظلم و ستم سہتے ہم
اب تو کچھ لطف خدارا کیجے

شان الفت کی جو اب بات کرے
اس کو دو چار لگایا کیجے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے
آپ کہہ کر نہ پکارو ہم کو
نام سے ہم کو پکارا کیجے
شتر گربہ ہے، یوں کر دیں
آپ کہہ کر نہ پکاریں ہم کو

اور یہ مصرع وزن میں نہیں
یوں نہ سرعام تماشا کیجے
سرِ عام محض سر عام، بغیر اضافت کے تقطیع ہو رہا ہے
 
Top