برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے

ابھی کانٹوں کے چبھنے کی شکایت ہے جسے گل سے
مہک مانگے گا وہ مرغِ چمن اپنے لیے گل سے

خزاں کا خوف ان کو ہو جنھیں یہ ڈر ہے گلشن میں
کبھی خوشبو نہیں آئے گی مرجھائے ہوئے گل سے

مہک دے گا، کھلے گا بھی ذرا موسم بدلنے دو
کسی کو ہو نہ ہو لیکن توقع ہے مجھے گل سے

شکایت اس کو پیڑوں سے کبھی الزام پتوں پر
حسد بلبل سے بھی اس کو عداوت ہے جسے گل سے

میسر ہو گئی جو دید، تنہائی کے لمحوں میں
نظر کے سامنے رکھ کر کئی شکوے کیے گل سے

بہار آنے کے بعد اب تک جو کلیاں کھل نہیں پائیں
گلے مل کر کریں گے تعزیت ان کے لیے گل سے

عجب منظر تھا جیسے آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہوں
زمیں پر چند قطرے اوس کے گرتے رہے گل سے​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے دلچسپ زمین میں۔ مگر اسی وجہ سے مطلع بے معنی ہو گیا۔ مرغ کو مہک کی کیا ضرورت؟ کیا اس لیے کہ جب اس کا سالن یا بریانی بنائی جائے تو خوشبو آنے!!
اور
مہک دے گا، کھلے گا بھی ذرا موسم بدلنے دو
کسی کو ہو نہ ہو لیکن توقع ہے مجھے گل سے
پہلا مصرع روانی چاہتا ہے، پہلے کھلے گا یا مہکے گا؟ یوں ہو تو
کھلے گا اور مہکے گا بھی، بس موسم بدلنے دو
باقی سب درست لگ رہی ہے غزل
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
چھی غزل ہے دلچسپ زمین میں۔ مگر اسی وجہ سے مطلع بے معنی ہو گیا۔ مرغ کو مہک کی کیا ضرورت؟ کیا اس لیے کہ جب اس کا سالن یا بریانی بنائی جائے تو خوشبو آنے!!
:) سر اشارہ بلبل کی طرف تھا کہ جو کانٹوں کے چبھنے کی شکایت کر رہا ہے لیکن پھر خوشبو کی خاطر ہی باغ میں آئے گا گل سے خوشبو کی فرمائش کرے گا۔ اصل میں مقصد یہ تھا کہ جو لوگ بلا وجہ دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں وقت پڑنے پر وہی اپنا مدعا بھی انہی کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ خیر میں متبادل سوچتا ہوں۔

پہلا مصرع روانی چاہتا ہے، پہلے کھلے گا یا مہکے گا؟ یوں ہو تو
کھلے گا اور مہکے گا بھی، بس موسم بدلنے دو
ٹھیک ہے سر
 

الف عین

لائبریرین
پرند خوشبو کی تلاش میں باغوں میں نہیں آتے، گھونسلوں کی تلاش میں اور محض ہریالی کے لیے آتے ہیں
 

فلسفی

محفلین
پرند خوشبو کی تلاش میں باغوں میں نہیں آتے، گھونسلوں کی تلاش میں اور محض ہریالی کے لیے آتے ہیں
سر یہ مطلع مناسب رہے گا

ابھی کانٹوں کے چبھنے کی شکایت ہے جسے گل سے
وہی بادِ صبا لپٹے گی خوشبو کے لیے گل سے

سر دوسرے شعر کا متبادل ان میں سے کوئی لیا جاسکتا ہے

مہک اٹھے گا خوشبو سے ذرا موسم بدلنے دو
کسی کو ہو نہ ہو لیکن توقع ہے مجھے گل سے
یا
ذرا موسم بدلنے پر کھلے گا اور مہکے گا
کسی کو ہو نہ ہو لیکن توقع ہے مجھے گل سے
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
درست ہے مطلع
موسم والا بھی جو متبادل تمہیں پسند ہو، رکھو۔ دونوں اچھے ہیں
بہت شکریہ سر

ابھی کانٹوں کے چبھنے کی شکایت ہے جسے گل سے
وہی بادِ صبا لپٹے گی خوشبو کے لیے گل سے

خزاں کا خوف ان کو ہو جنھیں یہ ڈر ہے گلشن میں
کبھی خوشبو نہیں آئے گی مرجھائے ہوئے گل سے

ذرا موسم بدلنے پر کھلے گا اور مہکے گا
کسی کو ہو نہ ہو لیکن توقع ہے مجھے گل سے

شکایت اس کو پیڑوں سے کبھی الزام پتوں پر
حسد بلبل سے بھی اس کو عداوت ہے جسے گل سے

میسر ہو گئی جو دید تنہائی کے لمحوں میں
نظر کے سامنے رکھ کر کئی شکوے کیے گل سے

بہار آنے کے بعد اب تک جو کلیاں کھل نہیں پائیں
گلے مل کر کریں گے تعزیت ان کے لیے گل سے

عجب منظر تھا جیسے آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہوں
زمیں پر چند قطرے اوس کے گرتے رہے گل سے​
 
Top