فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے
ابھی کانٹوں کے چبھنے کی شکایت ہے جسے گل سے
مہک مانگے گا وہ مرغِ چمن اپنے لیے گل سے
خزاں کا خوف ان کو ہو جنھیں یہ ڈر ہے گلشن میں
کبھی خوشبو نہیں آئے گی مرجھائے ہوئے گل سے
مہک دے گا، کھلے گا بھی ذرا موسم بدلنے دو
کسی کو ہو نہ ہو لیکن توقع ہے مجھے گل سے
شکایت اس کو پیڑوں سے کبھی الزام پتوں پر
حسد بلبل سے بھی اس کو عداوت ہے جسے گل سے
میسر ہو گئی جو دید، تنہائی کے لمحوں میں
نظر کے سامنے رکھ کر کئی شکوے کیے گل سے
بہار آنے کے بعد اب تک جو کلیاں کھل نہیں پائیں
گلے مل کر کریں گے تعزیت ان کے لیے گل سے
عجب منظر تھا جیسے آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہوں
زمیں پر چند قطرے اوس کے گرتے رہے گل سے
مہک مانگے گا وہ مرغِ چمن اپنے لیے گل سے
خزاں کا خوف ان کو ہو جنھیں یہ ڈر ہے گلشن میں
کبھی خوشبو نہیں آئے گی مرجھائے ہوئے گل سے
مہک دے گا، کھلے گا بھی ذرا موسم بدلنے دو
کسی کو ہو نہ ہو لیکن توقع ہے مجھے گل سے
شکایت اس کو پیڑوں سے کبھی الزام پتوں پر
حسد بلبل سے بھی اس کو عداوت ہے جسے گل سے
میسر ہو گئی جو دید، تنہائی کے لمحوں میں
نظر کے سامنے رکھ کر کئی شکوے کیے گل سے
بہار آنے کے بعد اب تک جو کلیاں کھل نہیں پائیں
گلے مل کر کریں گے تعزیت ان کے لیے گل سے
عجب منظر تھا جیسے آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہوں
زمیں پر چند قطرے اوس کے گرتے رہے گل سے