سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے۔ صحافت میں دیانت کا علم بیچا نہیں جاتا ذرا سے نفع کی خاطر قلم بیچا نہیں جاتا لٹا دینا تم اپنی جان کو ایمان کے بدلے کسی بھی حال میں اپنا دھرم بیچا نہیں جاتا لگے جتنی بھی قیمت جھوٹ تو پھر جھوٹ رہتا ہے ضرورت میں بھی سچ کو بیش و کم بیچا نہیں جاتا کسی بازار میں بکتا نہیں کیوں پوچھتے ہو دام یہ میرا عزم ہے جو محترم بیچا نہیں جاتا کسی ظالم کو عادل چند سکوں کے عوض لکھ کر وقار الفاظ کا اہلِ قلم بیچا نہیں جاتا
اچھی غزل ہے بس مطلع میں ایطا کا سقم در آیا ہے علم اور قلم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ قوافی لم پر ختم ہونے والے ہیں جب کہ واقعی ایسا نہیں ہے ہندی میں دھرم میں را پر جزم ہوتا ہے جو کہ درست تلفظ ہے لیکن اردو والوں نے اسے مفتوح بنا دیا ہے، اس لیے قبول کرنا پڑتا ہے مگر کم از کم میں ایسے استعمال کرنا پسند نہیں کرتا
شکریہ سر سر مطلع یوں درست رہے گا صحافت میں خبر کا پیچ و خم بیچا نہیں جاتا ذرا سے نفع کی خاطر قلم بیچا نہیں جاتا جی سر ہم بھی دھرَم ہی پڑھتے رہے ہیں۔ اس مصرعے کو اگر یو کہیں تو لٹا دینا تم اپنی جان کو ایمان کے بدلے کسی بھی طور مذہب کا علم بیچا نہیں جاتا
سر مطلع کا ایک متبادل یہ بھی ذہن میں آیا یے صحافت میں کبھی اپنا بھرم بیچا نہیں جاتا ذرا سے نفع کی خاطر قلم بیچا نہیں جاتا
جب بھرم چلتا ہے تو دھرم بھی چلے گا تم بھی چلنے دو دھرم ہی۔ وہی شعر رواں ہے صحافت والا شعر بھی ٹھیک ہے۔ اردو کا بھرم اب ان معنوں میں اردو کا ہی لفظ بن گیا ہے، اگرچہ یہ بھی ہندی کا ہی ہے مگر اس کے ہندی میں معنی 'دھوکا' ہیں! ہندی بھرم دھرم کا قافیہ ہی ہے
ٹھیک ہے سر صحافت میں کبھی اپنا بھرم بیچا نہیں جاتا ذرا سے نفع کی خاطر قلم بیچا نہیں جاتا لٹا دینا تم اپنی جان کو ایمان کے بدلے کسی بھی حال میں اپنا دھرم بیچا نہیں جاتا لگے جتنی بھی قیمت جھوٹ تو پھر جھوٹ رہتا ہے ضرورت میں بھی سچ کو بیش و کم بیچا نہیں جاتا کسی بازار میں بکتا نہیں کیوں پوچھتے ہو دام یہ میرا عزم ہے جو محترم بیچا نہیں جاتا کسی ظالم کو عادل چند سکوں کے عوض لکھ کر وقار الفاظ کا اہلِ قلم بیچا نہیں جاتا