برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح و تنقید کی گذارش ہے

تاریکیوں میں ہجرکی تنہا کبھی کبھی
ڈرتا ہے خود سے خوف کا سایا کبھی کبھی

کیفِ وصالِ یار کی خوشبو لیے ہوئے
آتا ہے اک خیال پرانا کبھی کبھی

گھیرا ہے دل نے درد کو ساحل کی طرز پر
چھوتی ہیں آ کے لہریں کنارہ کبھی کبھی

شیشے میں قید کر کے محبت کے عکس کو
دیکھیں گے آئینے میں سراپا کبھی کبھی

محفل کی بات اور ہے تنہائیوں میں وہ
روتے ہیں نام لے کے ہمارا کبھی کبھی

اپنوں نے سب کے سامنے دھکے دیے مگر
غیروں نے ہاتھ دے کے سنبھالا کبھی کبھی

شاید کسی رقیب سے اب تک ہے رابطہ
ملتا ہے ان کے خط میں اشارہ کبھی کبھی​
 
مدیر کی آخری تدوین:
گھیرا ہے دل نے درد کو ساحل کے طرز پر
چھوتی ہے آ کے لہریں کنارہ کبھی کبھی
عمدہ غزل ہے ۔
اگر آپ پہلے مصرے میں "کے" کی جگہ" کی" اور دوسرے مصرے میں" ہے " کی جگہ " ہیں " کردیں تو شعر زبردست ہو جائے گا۔
بھائی یہ صرف ہماری رائے مشورہ ہے ، اصلاح تو استاد محترم ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔
 

فلسفی

محفلین
عمدہ غزل ہے ۔
اگر آپ پہلے مصرے میں "کے" کی جگہ" کی" اور دوسرے مصرے میں" ہے " کی جگہ " ہیں " کردیں تو شعر زبردست ہو جائے گا۔
بھائی یہ صرف ہماری رائے مشورہ ہے ، اصلاح تو استاد محترم ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔
داد کے لیے بہت شکریہ۔
درست فرمایا آپ نے۔ جزاک اللہ خیر۔ اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ اپنے کوڈ میں بگ (غلطی) کسی کو نظر نہیں آتی۔ اسی لیے کیو اے ٹیم کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ جیسا آپ نے فرمایا۔ تدوین کردی ہے۔
 

انیس جان

محفلین
عمدہ غزل ہے ۔
اگر آپ پہلے مصرے میں "کے" کی جگہ" کی" اور دوسرے مصرے میں" ہے " کی جگہ " ہیں " کردیں تو شعر زبردست ہو جائے گا۔
بھائی یہ صرف ہماری رائے مشورہ ہے ، اصلاح تو استاد محترم ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔
محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی آپ تو کہتے تھے کہ میں خود سیکھنے کی عرض سے اصلاح زمرے میں آتا ہوں
لیکن آج تو تم اصلاح دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہو
 

یاسر شاہ

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح و تنقید کی گذارش ہے

تاریکیوں میں ہجرکی تنہا کبھی کبھی
ڈرتا ہے خود سے خوف کا سایا کبھی کبھی

کیفِ وصالِ یار کی خوشبو لیے ہوئے
آتا ہے اک خیال پرانا کبھی کبھی

گھیرا ہے دل نے درد کو ساحل کی طرز پر
چھوتی ہیں آ کے لہریں کنارہ کبھی کبھی

شیشے میں قید کر کے محبت کے عکس کو
دیکھیں گے آئینے میں سراپا کبھی کبھی

محفل کی بات اور ہے تنہائیوں میں وہ
روتے ہیں نام لے کے ہمارا کبھی کبھی

اپنوں نے سب کے سامنے دھکے دیے مگر
غیروں نے ہاتھ دے کے سنبھالا کبھی کبھی

شاید کسی رقیب سے اب تک ہے رابطہ
ملتا ہے ان کے خط میں اشارہ کبھی کبھی​

اچھی غزل ہے فلسفی صاحب -

شیشے والا شعر ذرا واضح نہیں کیوں کہ عکس دیکھنے کے لئے تو آئینہ درکار ہوتا ہے نہ کہ شیشہ -اگر وضاحت کر دیں تو نوازش ہوگی -
 

فلسفی

محفلین
اچھی غزل ہے فلسفی صاحب -

شیشے والا شعر ذرا واضح نہیں کیوں کہ عکس دیکھنے کے لئے تو آئینہ درکار ہوتا ہے نہ کہ شیشہ -اگر وضاحت کر دیں تو نوازش ہوگی -
بہت شکریہ محترم
میری ناقص فہم میں شیشہ ایک عام اسم ہے جو بطور آئینہ بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ پہلے مصرعے میں شیشہ سے مراد آئینہ ہی ہے۔ لیکن الفاظ کی روانی کی خرابی اور آئینہ کی تکرار سے بچنے کے لیے شیشہ استعمال کیا ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جو ممکن ہے غلط ہو۔
 
Top