برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین

مزید دھکے جب تک انھیں نہیں ملتے
تھمے ہوئے آنسو گال سے نہیں ہلتے

انھیں خزاں کے موسم میں کون پہچانے
بہار کے موسم میں جو گُل نہیں کھلتے

ہر اک تخیَل اشعار میں نہیں ڈھلتا
کبھی سخن ور کو لفظ ہی نہیں ملتے

جو زخم بھنورے نے پھول پر لگائے ہیں
کسی کے ہائے کہنے سے تو نہیں سِلتے

تلاش کر اپنے دل میں بت شِکن جذبہ
صنم کدے سے کیا پاسباں نہیں ملتے؟​
 

فلسفی

محفلین
تلاش کر اپنے دل میں بت شِکن جذبہ
صنم کدے سے کیا پاسباں نہیں ملتے؟
سر الف عین اس شعر میں عجز بیاں محسوس ہو رہا تھا ایک ترتیب اس کی یہ بھی ہے۔ معلوم نہیں مناسب ہے کہ نہیں

تلاش کر اپنے دل میں بت شِکن جذبہ
کہ دَیر سے حق کو پاسباں نہیں ملتے؟
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو پوری غزل میں عجز بیان محسوس ہو رہا ہے نامانوس بحر کی وجہ سے۔ اس کو الفاظ بدل کر مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن میں کیوں نہ ڈھال کر دیکھا جائے؟
 
Top