برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین
جھڑی دیکھی ہے ہم نے آنسؤں کے ان کی آنکھوں میں
کہ جیسے بارشیں ہوتی ہیں ساون اور بھادوں میں
انھیں اس بات کا احساس بالکل بھی نہیں شاید
لیے بیٹھے ہیں کب سے وہ ہمارا ہاتھ ہاتھوں میں
وصالِ یار کی خاطرہوئے رسوا مگر پھر بھی
گنے جائیں گے ہم کیوں روزِ محشر نامرادوں میں؟
ہمیں کہنا نہیں آتا مگر رونا تو آتا ہے
سنیں گے نام وہ اپنا ہماری سرد آہوں میں
ہمیشہ کے لیے اک دوسرے کو بھولنا ہوگا
خدایا استقامت دے ہمیں اپنے ارادوں میں
تغیر آج بھی سب دیکھتے ہیں ان کے چہرے پر
ہمارا تذکرہ ہوتا ہے جب باتوں ہی باتوں میں
ہوا میں ہاتھ لہراتے ہوئے اک آدمی دیکھا
کسی کا نام شاید لکھ رہا تھا وہ خیالوں میں
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل ماشاء اللہ ۔ مطلع میں ہندی والے یہ اعتراض کر سکتے ہیں (بشمول میرے) کہ بھادوں کا درست تلفظ دال پر فتحہ کے ساتھ ہے۔ اس لیے درست نہیں۔
 

فلسفی

محفلین
درست ہے غزل ماشاء اللہ ۔
شکریہ سر
مطلع میں ہندی والے یہ اعتراض کر سکتے ہیں (بشمول میرے) کہ بھادوں کا درست تلفظ دال پر فتحہ کے ساتھ ہے۔ اس لیے درست نہیں۔
سر یہ بات مکمل طور پر سمجھ نہیں سکا۔ شاید میں تلفظ کی غلطی کر رہا ہوں۔ میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ "آنکھوں"، "مرادوں" وغیرہ میں بھی "واو" سے قبل جو لفظ ہے اس پر زبر (فتحہ) ہے۔ یعنی "کھَ" اور "دَ" وغیرہ۔
لفظ "بھادوں" مطلع میں کیا ملفوظی اعتبار سے قابل قبول ہوگا؟ کیا مطلع کے دوسرے شعر میں قافیے کے لیے کسی لفظ کے مجموعے کو استعمال کرنا درست ہو گا؟ جیسے "داستان" سے "داستانوں" مثلا
جھڑی دیکھی ہے ہم نے آنسؤں کی ان کی آنکھوں میں
کہ جس کا غم بیاں ہو گا ہزاروں داستانوں میں
اگر کوئی مناسب نہیں تو مطلع کے لیے آپ ہی کچھ عنایت فرما دیں۔
 
آخری تدوین:
لفظ "بھادوں" مطلع میں کیا ملفوظی اعتبار سے قابل قبول ہوگا؟ کیا مطلع کے دوسرے شعر میں قافیے کے لیے کسی لفظ کے مجموعے کو استعمال کرنا درست ہو گا؟
کلاسیکی علمِ قافیہ کے اعتبار سے مطلع میں ایطائے خفی ہے کیونکہ اگر مشترکہ "وں" غائب کر دیا جائے تو آںکھ اور بھاد بچتے ہیں۔ بھاد چونکہ بامعنی نہیں اس لیے اسے ایطائے خفی کہیں گے اگر یہ بامعنی ہوتا(مثلاً اگر آپ نے "داستانوں" کا قافیہ استعمال کیا ہوتا) تو اسے ایطائے جلی کہتے۔ لیکن موجودہ شاعری میں ایسے قوافی اب مقبولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ (زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو)
لیکن چونکہ بھادوں کا تلفظ کچھ مختلف سا ہے اس لیے وہ یہاں بطورِ قافیہ درست نہیں۔
 

فلسفی

محفلین
کلاسیکی علمِ قافیہ کے اعتبار سے مطلع میں ایطائے خفی ہے کیونکہ اگر مشترکہ "وں" غائب کر دیا جائے تو آںکھ اور بھاد بچتے ہیں۔ بھاد چونکہ بامعنی نہیں اس لیے اسے ایطائے خفی کہیں گے اگر یہ بامعنی ہوتا(مثلاً اگر آپ نے "داستانوں" کا قافیہ استعمال کیا ہوتا) تو اسے ایطائے جلی کہتے۔ لیکن موجودہ شاعری میں ایسے قوافی اب مقبولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ (زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو)
لیکن چونکہ بھادوں کا تلفظ کچھ مختلف سا ہے اس لیے وہ یہاں بطورِ قافیہ درست نہیں۔
وضاحت کے لیے شکریہ سر۔ لیکن کہیں پڑھا تھا کہ مطلع کے ایک مصرعہ میں مکمل لفظ لا کر حرف زائد کو بھی حرف روی بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے قافیہ میں کشادگی آجاتی ہے۔ اس لحاظ سے قطع نظر کے تلفظ کی غلطی موجود ہے لفظ "بھادوں" کی وجہ حرف روی "ں" نہیں بنتا؟
مطلع کو ہی اگر تبدیل کر دیا جائے تو باقی اشعار درست تصور ہوں گے؟ جیسے

ہمارا دوست رہتا ہے ابھی تک ایک گاؤں میں
چلیں گے اس سے ملنے ہم کھلی تازہ فضاؤں میں
جھڑی دیکھی ہے ہم نے آنسؤں کی ان کی آنکھوں میں
کہ جس کا غم بیاں ہو گا ہزاروں داستانوں میں
یہاں بھی "گاؤں" کی وجہ سے حرف روی "ں" تصور کیا ہے۔ آپ مہربانی کر کے تصحیح فرمادیجیے اگر یہ بات درست نہیں۔
 
جھڑی دیکھی ہے ہم نے آنسؤں کی ان کی آنکھوں میں
کہ جس کا غم بیاں ہو گا ہزاروں داستانوں میں
اگر اسے مطلع بنا دیں تو قوافی درست ہو جائیں گے.
ہمارا دوست رہتا ہے ابھی تک ایک گاؤں میں
چلیں گے اس سے ملنے ہم کھلی تازہ فضاؤں میں
یہاں بھی "گاؤں" کی وجہ سے حرف روی "ں" تصور کیا ہے۔
جی بالکل مگر اس صورت میں ؤ حرفِ ردف بن جائے گا اور اس کی پابندی تمام اشعار میں لازم ہو جائے گی.
 

فلسفی

محفلین
اگر اسے مطلع بنا دیں تو قوافی درست ہو جائیں گے.
شکریہ سر۔ مگر ایطائے جلی کا سقم باقی رہے گا؟ جیسا آپ نے فرمایا کہ موجودہ شاعری میں اس کی اجازت ہے۔
ویسے شعراء کے ہاں اس کو کس قدر ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے؟ مطلب کہ ایسی غزل کو اپنے مجموعے میں شامل کیا جانا چاہئیے یا مطلع پر مزید طبع آزمائی کر کے اس عیب سے بچنے کی کوشش کی جائے؟
 

فلسفی

محفلین
اگر شعر کی باقی تمام خوبیاں اس خامی پر پردہ ڈال دیں تو اسے روا رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں.

شکریہ سر

جھڑی دیکھی ہے ہم نے آنسؤں کی ان کی آنکھوں میں
کہ جس کا غم بیاں ہو گا ہزاروں داستانوں میں
انھیں اس بات کا احساس بالکل بھی نہیں شاید
لیے بیٹھے ہیں کب سے وہ ہمارا ہاتھ ہاتھوں میں
وصالِ یار کی خاطر ہوئے رسوا مگر پھر بھی
گنے جائیں گے ہم کیوں روزِ محشر نامرادوں میں؟
ہمیں کہنا نہیں آتا مگر رونا تو آتا ہے
سنیں گے نام وہ اپنا ہماری سرد آہوں میں
ہمیشہ کے لیے اک دوسرے کو بھولنا ہوگا
خدایا استقامت دے ہمیں اپنے ارادوں میں
تغیر آج بھی سب دیکھتے ہیں ان کے چہرے پر
ہمارا تذکرہ ہوتا ہے جب باتوں ہی باتوں میں
ہوا میں ہاتھ لہراتے ہوئے اک آدمی دیکھا
کسی کا نام شاید لکھ رہا تھا وہ خیالوں میں
 
Top