برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
جمہوریت کے دور میں جمہور خالی ہاتھ ہے
جیبیں بھری ہیں سیٹھ کی مزدور خالی ہاتھ ہے
میرے وطن تیری قسم، آسودہ اور خوش حال ہے
ہر مقتدر طبقہ مگر مجبور خالی ہاتھ ہے
معتوب ہے مظلوم ہے، افسوس ہے جس کے لیے
دستور لکھا ہے وہی مذکور خالی ہاتھ ہے
لپٹی کفن میں لاش کو دیکھو ذرا تم غور سے
وہ ہو سکندر یا کوئی تیمور، خالی ہاتھ ہے
دانشوروں کے شہر میں دل کی کوئی سنتا نہیں
اہلِ خرد کا زور ہے منصور خالی ہاتھ ہے
بے برکتی چھائی ہوئی ہیں ہر جگہ کچھ اس طرح
مغموم خالی ہاتھ ہے مسرور خالی ہاتھ ہے
سچی تھی موسی کی طلب سو وہ مرادیں پا گئے
مٹی ہوا جو خوف سے وہ طور خالی ہاتھ ہے
 

الف عین

لائبریرین
محفل میں خوش آمدید۔
جمہوریت کے دور میں جمہور خالی ہاتھ ہے
جیبیں بھری ہیں سیٹھ کی مزدور خالی ہاتھ ہے
۔۔۔جمہور کا خالی ہاتھ ہونا سمجھ میں نہیں آتا

میرے وطن تیری قسم، آسودہ اور خوش حال ہے
ہر مقتدر طبقہ مگر مجبور خالی ہاتھ ہے
۔۔۔ مقتدر طبقہ آسودہ و خوشحال ہے، یہی کہنا ہے نا! لیکن مطلب الٹا نکل رہا ہے۔ کہ نثر یوں ہو گی۔
مگر ہر مقتدر طبقہ مجبور (اور) خالی ہاتھ ہے
اس کے علاوہ 'آسودہر' تقطیع ہونا بھی خوش گوار نہیں۔ واو عطف استعمال کریں۔
معتوب ہے مظلوم ہے، افسوس ہے جس کے لیے
دستور لکھا ہے وہی مذکور خالی ہاتھ ہے
۔۔۔مذکور؟ یہ استعمال سمجھ میں نہیں آیا

لپٹی کفن میں لاش کو دیکھو ذرا تم غور سے
وہ ہو سکندر یا کوئی تیمور، خالی ہاتھ ہے
۔۔۔ٹھیک

دانشوروں کے شہر میں دل کی کوئی سنتا نہیں
اہلِ خرد کا زور ہے منصور خالی ہاتھ ہے
۔۔۔درست

بے برکتی چھائی ہوئی ہیں ہر جگہ کچھ اس طرح
مغموم خالی ہاتھ ہے مسرور خالی ہاتھ ہے
۔۔۔ مغموم اور مسرور صفات ہیں، بطور اسم استعمال درست نہیں

سچی تھی موسی کی طلب سو وہ مرادیں پا گئے
مٹی ہوا جو خوف سے وہ طور خالی ہاتھ ہے
۔۔۔جو خوف سے مٹی ہوا۔۔۔ زیادہ رواں ہو گا
 

فلسفی

محفلین
محفل میں خوش آمدید۔
شکریہ سر
۔۔۔جمہور کا خالی ہاتھ ہونا سمجھ میں نہیں آتا
میرے خیال میں تعریف کے اعتبار سے جمہوریت کا فائدہ جمہور کو ملنا چاہیے۔ جبکہ ایسا نہیں ہو رہا اور جمہور یعنی عوام خالی ہاتھ ہے۔
۔۔۔ مقتدر طبقہ آسودہ و خوشحال ہے، یہی کہنا ہے نا! لیکن مطلب الٹا نکل رہا ہے۔ کہ نثر یوں ہو گی۔
مگر ہر مقتدر طبقہ مجبور (اور) خالی ہاتھ ہے
اس کے علاوہ 'آسودہر' تقطیع ہونا بھی خوش گوار نہیں۔ واو عطف استعمال کریں۔
اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ اب دیکھیں سر

ہر مقتدر طبقہ یہاں آسودہ و خوشحال ہے
میرے وطن تیری قسم مجبور خالی ہاتھ ہے
۔۔۔مذکور؟ یہ استعمال سمجھ میں نہیں آیا
یعنی آئین اور دستور میں جس عوام کا ذکر ہے وہی خالی ہاتھ ہے۔
۔۔۔ مغموم اور مسرور صفات ہیں، بطور اسم استعمال درست نہیں
معلومات میں اضافے کا شکریہ، تبدیلی کے ساتھ دیکھیں اب

بے برکتی چھائی ہوئی ہے ہر جگہ کچھ اس طرح
ہر شخص ہو مغموم یا مسرور خالی ہاتھ ہے
 

الف عین

لائبریرین
میرے وطن تیری قسم مجبور خالی ہاتھ ہے
تیری قسم جم نہیں رہا۔ اس کو یوں کہیں،
ہر فرد میرے ملک کا مجبور، خالی ہاتھ ہے
یعنی آئین اور دستور میں جس عوام کا ذکر ہے وہی خالی ہاتھ ہے۔
معذرت، الفاظ سے یہ معنی برامد نہیں ہوتے
یعنی آئین اور دستور میں جس عوام کا ذکر ہے وہی خالی ہاتھ ہے۔
مجھے اطمینان نہیں ہوا اس وضاحت کے ساتھ
بے برکتی چھائی ہوئی ہے ہر جگہ کچھ اس طرح
ہر شخص ہو مغموم یا مسرور خالی ہاتھ ہے
یہ بھی قابل اطمینان نہیں
 

فلسفی

محفلین
میرے وطن تیری قسم مجبور خالی ہاتھ ہے
تیری قسم جم نہیں رہا۔ اس کو یوں کہیں،
ہر فرد میرے ملک کا مجبور، خالی ہاتھ ہے
سر پہلے مصرعے میں ہرمقتدر طبقے کا ذکر ہے تو بعد میں ہرفرد کہنا مناسب رہے گا؟ اس شعر کی نثر کچھ اس طرح ہے کہ 'مقتدر طبقہ خوشحال ہے مگر مجبور شخص خالی ہاتھ ہے' کیا اس کو اس انداز سے بیان کیا جاسکتا ہے؟
بدقسمتی سے ملک میں آسودہ و خوشحال ہے
ہر مقتدر طبقہ مگر مجبور خالی ہاتھ ہے

'مسرور' والا شعر نکال دیا ہے۔ 'مذکور' والا شعر یوں کہا جا سکتا ہے؟
آئینِ پاکستان میں جس فرد کی بہبود کا
ہے تذکرہ موجود وہ مذکور خالی ہاتھ ہے

ایک شعر کا اضافہ کیا ہے۔ اس کو بھی دیکھ لیجیے۔
اس مال پیسے پر اگر خود کو بڑا سمجھے کوئی
اللہ کی رحمت سے وہ مغرور خالی ہاتھ ہے
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھئی۔ وہ دونوں اشعار درست نہیں ہو سکے۔
نیا شعر ٹھیک ہے
لیکن مال پیسے محاورے کے خلاف ہے۔ مال و دولت' کہنے میں کیا قباحت ہے؟
 

فلسفی

محفلین
نہیں بھئی۔ وہ دونوں اشعار درست نہیں ہو سکے۔
آخری کوشش آپ کے عطا کردہ مصرعے کے ساتھ ورنہ ان دونوں کو ہی نکال دیتا ہوں
اک مقتدر طبقہ فقط خوشخال ہے اس کے سوا
ہر فرد میرے ملک کا مجبور خالی ہاتھ ہے

نیا شعر ٹھیک ہے
لیکن مال پیسے محاورے کے خلاف ہے۔ مال و دولت' کہنے میں کیا قباحت ہے؟
درست کہا آپ نے، کبھی کبھار الفاظ ایسے چھپ جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ سادہ سی ترکیب بھی ذہن میں پہلے کیوں نہ آئی۔

معذرت کے ساتھ ایک اضافی شعر اور ذہن میں آگیا ہے۔ اس کو بھی دیکھ لیجیے۔ آپ کے وقت کا بہت بہت شکریہ۔
جس کی سخاوت کا جہاں میں خوب چرچہ تھا کبھی
وہ آدمی جو تھا بہت مشہور خالی ہاتھ ہے
 
Top