فعولن فعولن فعولن فعولن
-------------------
یہ دنیا تو میری ضرورت نہیں ہے
مجھے کوئی بھی اس کی حاجت نہیں ہے
-----------
یہ بندے کو دور کرتی ہے رب سے
کوئی دل میں میرے تو عزّت نہیں ہے
----------
نفس کے لئے یہ مناسب جگہ ہے
مگر روح کو کوئی راحت نہیں ہے
----------
بُلاتی ہے دنیا بدی کی طرف ہی
ہاں نیکی سے اس کو تو رغبت نہیں ہے
-------------
سدا ہی یہاں تجھ کو رہنا نہیں ہے
تبھی نیکوں کے دل میں وقعت نہیں ہے
---------------
ہے دنیا کو چھوڑا خدا کے لئے ہی
مجھے اس میں کوئی بھی خفّت نہیں ہے
-------
ہاں اچھّی بُری جیسی بھی ہے یہ ارشد
جو کچھ بھی کہو یہ ضرورت نہں ہے
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ کہوں کہ ٹیگ کرنے کے لیے @ کے بعد سپیس نہ دیں، تب ہی درست ہو گا۔
دوسری بات، جن غزلوں پر بات ہو چکی ہے، ان پر کیا عمل کیا گیا ہے، اس کا معلوم نہیں ہوا۔ محض نئی غزل پوسٹ کر دی جاتی ہے۔
اس غزل میں بھی بھرتی کے الفاظ بہت ہیں جو روانی کو متاثر کرتے ہیں، تو، ہی، بھی وغیرہ سے بچیں۔
اس غزل میں بھی مفہوم کے لحاظ سے کئی سوال اٹھتے ہیں جن کا جواب ندارد ہے۔ کس چیز کی وقعت نہیں ہے؟ کیا چیز رب سے دور کرتی ہے وغیرہ۔
ایک مصرع بحر سے خارج ہے
یہ بندے کو دور کرتی ہے رب سے
 
اسلام علیکم ۔جنابِ محترم سب سے پہلے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ خصوصی توجہ فرماتے ہیں
1---یہ غزل دنیا کے متعلق لکھی ہے تو ہر مصرع دنیا کے متعلق ہے پھر بھی جہاں مفہوم واضع نہیں میں تبدیل کرنے کی کوشش کروں گا۔
2---آپ کا حکم بجا ہے کہ کچھ بھرتی کے الفاظ ہیں ۔دراصل فعولن کے وزن کو پورا کرنے کے لئے یعنی 221 ہجہ کوتاہ +ہجہ بلند+ہجہ بلند اس لئے تو،ہی ،بھی وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے
3--چند ایک غزلیں تصحیح کے بعد اُسی لڑی میں پوسٹ کی ہیں باقی کو بھی ریوائز کرنے کی کوشش کروں گا
آخر میں پھر آپ کا شکر گزار ہوں میرے لئے دعا کیجئے گا ہاتھ کا زخم بہتر ہو رہا ہے مگر آہستگی کے ساتھ کیوں کہ شوگر بھی زیادہ ہے۔
 
Top