برائے اصلاح

فعولن فعولن فعولن فعلولن
-----------------
زُباں رُک گئی بے وفا کہتے کہتے
رُکے ہم تو بس کج ادا کہتے کہتے
محبّت کی بازی تو ہاری تھی ہم نے
رُکے پھر بھی ہم بے حیا کہتے کہتے
لُٹایا محبّت میں اپنا سبھی کچھ
رُکے پھر بھی ہم تو سزا کہتے کہتے
تھی کُٹیا محبّت کی اُس نے جلائی
رُکے پھر بھی ہم دل جلا کہتے کہتے
نہ تم جان دے دینا اپنی ہی ارشد
یہ دنیا کو اچھا بھلا کہتے کہتے
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی غلطی تو کوئی نہیں ہے۔ محض زبان و بیان کی ہیں۔
زُباں رُک گئی بے وفا کہتے کہتے
رُکے ہم تو بس کج ادا کہتے کہتے
۔۔۔ واضح نہیں

محبّت کی بازی تو ہاری تھی ہم نے
رُکے پھر بھی ہم بے حیا کہتے کہتے
۔۔۔ کس کو بے حیا کہنا چاہتے تھے؟ کیوں رک گئے؟

لُٹایا محبّت میں اپنا سبھی کچھ
رُکے پھر بھی ہم تو سزا کہتے کہتے
۔۔۔ کیوں آخر؟

تھی کُٹیا محبّت کی اُس نے جلائی
رُکے پھر بھی ہم دل جلا کہتے کہتے
۔۔۔ کٹیا بمعنی جھونپڑی، کیا دل کی کٹیا مراد ہے؟

نہ تم جان دے دینا اپنی ہی ارشد
یہ دنیا کو اچھا بھلا کہتے کہتے
۔۔۔ 'یہ دنیا' غلط محاورہ ہے، درست 'اس دنیا' ہونا چاہئے۔
مختصر یہ کہ یہ غزل عجز بیان کی شکار ہے
 
محترم تبدیلیوں کے بعد دوبارا پیش کر رہا ہوں
زباں رُک گئی بے وفا کہتے کہتے
رُکے ہم اُسے کج ادا کہتے کہتے
محبّت کی بازی تو ہاری تھی ہم نے
رُکے اُس کو بے ھیا کہتے کہتے
محبْت مین اپنا لٹایا سبھی کچھ
نہ میرا بنا وہ پیا کہتے کہتے
جلائی تھی بستی اسی نے تو دل کی
رُکے ہم اسے دل جلا کہتے کہتے
نہ تم جان دے دینا اپنی ہی ارشد
اس دنیا کو اچھا بھلا کہتے کہتے
 

الف عین

لائبریرین
یہ مصرع بحر میں نہیں ہیں۔
اس دنیا کو اچھا بھلا کہتے کہتے
ردیف درست نہیں نبھائی جا سکی ہے۔ مطلع تو چل سکتا ہے لیکن اس کے بعد۔۔۔۔۔
محبت کی بازی ہار کر محبوب کو بے حیائی کا الزام کیوں؟ یہ سمجھ میں نہیں آیا۔
'پیا' جیسے ہندی الفاظ فلمی گیتوں میں استعمال ہوتے ہیں، غزل میں نہیں۔ اور اگر قبول کر بھی لیں تو جب محبوب پیا کہ ہی رہا ہے تو وہ آپ کا کیوں نہیں بنا؟
چوتھے شعر میں محبوب کو شاعر کا دل جلانے والا کہا جاتا ہے، لیکن اسی کو پھر دل جلا کہا جا رہا ہے! دل جلانے والا نہیں، جس کا دل جلتا ہے، اسے دل جلا کہتے ہیں۔
آخری شعر کی بحر کی بات کہہ چکا ہوں
 
Top