برائے اصلاح

جسے میں سوچتا رہتا ہوں وہ کر کیوں نہیں جاتا
اُس حاکمِ کونین سےمیں ڈر کیوں نہیں جاتا

اپنے رب سے کئیے وعدوں کو نبھانے کی خاطر
میں خود سے کئیے، وعدوں سے مُکر کیوں نہیں جاتا

وعدہ کیا تھا میں نے جو رب سے بروزِ اَجّل
نبھانے پھر اسے رب کے میں گھر کیوں نہیں جاتا

میں خود پہ کئیےظلم پہ شرمندہ ہوں میرے رب
میں گناہوں کی اِس دَلدل سے نِکل کیوں نہیں جاتا

رحمت ہے تیری مجھ پہ کہ ابھی مہلت ہے میرے پاس
حیراں ہوں میں خود پر کہ میں مر کیوں نہیں جاتا

بابر تُو اپنے رشتوں کو بچانے کی خاطر
اِس تلخیِ لحجے کو نِگل کیوں نہیں جاتا
 
Top