برائے اصلاح: ہاتھ خالی لیے جب شام کو گھر جاتا ہوں

مقبول

محفلین
محترمین
سر الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے

ہاتھ خالی لیے جب شام کو گھر جاتا ہوں
بچوں کے سامنے میں شرم سے مر جاتا ہوں

بانٹتا پھرتا ہے پروانۂ موت آمرِ وقت
در پہ دستک بھی کوئی دے تو میں ڈر جاتا ہوں

خوف سے لوگ ہیں دبکے ہوئے کونوں میں سبھی
ہو کا عالم ہے میں گاؤں میں جدھر جاتا ہوں

گیت گاتا تھا ترے جن پہ کبھی چلتے ہوئے
اب میں چپ چاپ انہی رستوں سے گذر جاتا ہوں

ہیں زبان اور ثقافت بھی مری مقتل میں
دیکھ کر ظلم یہ روتا ہوں بکھر جاتا ہوں

جانتا ہوں یہ کہ انصاف نہیں ملنا مجھے
میں عدالت میں رکھے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں

جب وطن آیا تو آنکھوں میں بھرے تھے جگنو
واپسی پر لیے میں دیدۂ تر جاتا ہوں

ملک اپنا تو ہے مقبول، میں رہ سکتا نہیں
کٹ رہے خواب بھی ہیں مثلِ شجر، جاتا ہوں
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
محترمین
سر الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے

ہاتھ خالی لیے جب شام کو گھر جاتا ہوں
بچوں کے سامنے میں شرم سے مر جاتا ہوں

بانٹتا پھرتا ہے پروانۂ موت آمرِ وقت
در پہ دستک بھی جو دے کوئی تو ڈر جاتا ہوں

خوف سے لوگ ہیں دبکے ہوئے کونوں میں سبھی
ہو کا عالم ہے میں گاؤں میں جدھر جاتا ہوں

گیت گاتا تھا ترے جن پہ کبھی چلتے ہوئے
اب میں چپ چاپ انہی رستوں سے گذر جاتا ہوں

ہیں زبان اور ثقافت بھی مری مقتل میں
دیکھ کر ظلم یہ روتا ہوں بکھر جاتا ہوں

جانتا ہوں یہ کہ انصاف نہیں ملنا مجھے
میں عدالت میں رکھے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں

جب وطن آیا تھا، آنکھوں میں بھرے تھے جگنو
واپسی پر لیے میں دیدۂ تر جاتا ہوں

ملک اپنا تو ہے مقبول، میں رہ سکتا نہیں
کٹ رہے خواب بھی ہیں مثلِ شجر، جاتا ہوں
سر الف عین
احتیاطاً دوبارہ ٹیگ کر رہا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
ہاتھ خالی لیے جب شام کو گھر جاتا ہوں
بچوں کے سامنے میں شرم سے مر جاتا ہوں
لی لئے میں تنافر، دوسرے مصرعے میں اسقاط ناگوار ہے
بانٹتا پھرتا ہے پروانۂ موت آمرِ وقت
در پہ دستک بھی کوئی دے تو میں ڈر جاتا ہوں
درست
خوف سے لوگ ہیں دبکے ہوئے کونوں میں سبھی
ہو کا عالم ہے میں گاؤں میں جدھر جاتا ہوں
گاؤں پاؤں بطور اسم مجھے بطور فعل ہی پسند ہے، بطور فعلن جب ان کے معنی گانا اور پانا سے متعلق ہوں۔ یہاں بستی کر دو تو بہتر ہے
گیت گاتا تھا ترے جن پہ کبھی چلتے ہوئے
اب میں چپ چاپ انہی رستوں سے گذر جاتا ہوں
ترے گیت گانا؟ کیا مراد گن گانا ہے؟ ترے کے بغیر نظم کرو
ہیں زبان اور ثقافت بھی مری مقتل میں
دیکھ کر ظلم یہ روتا ہوں بکھر جاتا ہوں
مقتل مؤنث ہے؟ زبان و ثقافت کو شامل کرنے کی وجہ؟
جانتا ہوں یہ کہ انصاف نہیں ملنا مجھے
میں عدالت میں رکھے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں
ہاتھ پہ سر پچھتاوے کی علامت ہے، یہی سمجھ کر قبول کیا جا سکتا ہے شعر، یا کچھ اور مطلب ہے تو واضح کرو
جب وطن آیا تو آنکھوں میں بھرے تھے جگنو
واپسی پر لیے میں دیدۂ تر جاتا ہوں
شرطیہ کی جگہ دو جملے بنانا بہتر ہو گا، کاما کے ساتھ
جب وطن آیا/پہنچا تھا، آنکھوں....
واپسی پر میں لیے.....
ملک اپنا تو ہے مقبول، میں رہ سکتا نہیں
کٹ رہے خواب بھی ہیں مثلِ شجر، جاتا ہوں
بیانیہ پسند نہیں آیا، کسی اور طریقے سے کہا جائے
 
ہاتھ پہ سر پچھتاوے کی علامت ہے، یہی سمجھ کر قبول کیا جا سکتا ہے شعر، یا کچھ اور مطلب ہے تو واضح کرو
اپنے سہارے ،اپنے بھروسے ،آپ اپنی سرپرستی اور خودکفالت اور اپنی وکالت آپ کے مفاہیم میں بھی مستعمل ہے اور غالباً مقبول نے بھی ان میں سے کسی مفہوم میں برتا ہے :
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا۔، اپنے یاں سدا
مشفق کوئی نہیں ہےکوئی مہرباں نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرتقی میرؔ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اپنے سہارے ،اپنی سرپرستی آپ اور خودکفالت اور اپنی وکالت آپ کے مفاہیم میں بھی مستعمل ہے اور غالباً مقبول نے بھی ان میں سے کسی مفہوم میں برتا ہے :
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا۔، اپنے یاں سدا
مشفق کوئی نہیں ہےکوئی مہرباں نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرتقی میرؔ
لیکن شعر سے تو ایسا مفہوم ظاہر نہیں ہوتا
 
دنیا میں عدل و انصاف کی جو فضاء اِس وقت ہے ،اُس میں یہ شعرکچھ زیادہ غیرواضح بھی نہیں ، الّا ماشاءاللہ
 
آخری تدوین:
جانتا ہوں یہ کہ انصاف نہیں ملنا مجھے
میں عدالت میں رکھے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں
میں نے یہ شعر جلدی میں پڑھا اور میں اِس میں کہی بات کو سمجھنے میں غلطی کرگیا۔ مقبول کہہ رہے ہیں میں عدالت میں رکھے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں ،تواِس کا تو مفہوم ہی بدل گیا یہ تو ہتھیلی پر سر رکھنا جیسی بات ہوگئی جو مرنے مارنے کے ضمن میں کہی جاتی ہے ۔ اب شاعر کو یہ واضح کرنا ضروری ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟صحیح محاورہ تو سر ہتھیلی پر رکھنا/رہنا/ لینا/دھرنا وغیرہ ہے جس کا مطلب جان لینے اور دینے کے لیے آمادہ ہونا ہوا۔اور دوسرا صحیح محاورہ یوں ہے سر پر ہاتھ رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کا مفہوم کسی کے سر پر دستِ شفقت رکھنا ہے /کفالت کا ذمہ لینا یا وکالت کا عہد کرنا بھی ہے۔
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
سر الف عین
شکیل احمد خان23 صاحب
مطلع، مقطع کی تبدیلی، کچھ ا شعار کی تصیح اور کچھ اضافی ا شعار کی وجہ سے غزل کا نیا ورژن پیشِ خدمت ہے
دیکھ کر ملک کے حالات کو ڈر جاتا ہوں
اور پھر درد کی وادی میں اتر جاتا ہوں

جب وطن آیا تھا، آنکھوں میں بھرے تھے جگنو
واپسی پر میں لیے دیدۂ تر جاتا ہوں

جن پہ چلتا تھا میں گاتے ہوئے لہراتے ہوئے
اب میں چپ چاپ انہی راہوں سے گذر جاتا ہوں

در بدر پھرتے ہیں لیڈر مرے کاسہ لے کر
جب یہ سنتا ہوں تو میں شرم سے مر جاتا ہوں

بانٹتا پھرتا ہے پروانۂ موت آمرِ وقت
در پہ دستک بھی کوئی دے تو میں ڈر جاتا ہوں

خوف سے لوگ ہیں دبکے ہوئے کونوں میں سبھی
ہُو کا عالم ہے میں بستی میں جدھر جاتا ہوں

قاتل آزاد ہیں مقتل میں کھڑے ہیں معصوم
دیکھ کر ظلم یہ ٹکڑوں میں بکھر جاتا ہوں

نوجواں پھرتے ہوں آوارہ تو دل دکھتا ہے
مانگتے بھیک ہیں بچے تو ٹھٹھر جاتا ہوں

بھیس بدلے ہوئے پھرتے ہیں یہاں جیب تراش
ہاتھ خالی ہی میں ہر شام کو گھر جاتا ہوں

زورِ بازو سے ہی حق اپنا جہاں ملتا ہو
میں وہاں رکھ کے کھُلے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں

اس جگہ دفن سب آبا مرے ہونے کے سبب
سوچتا ہوں نہیں جاؤں گا مگر جاتا ہوں

شہ ہے خود خون خرابے میں ملوث مقبول
تخت کا کھیل ہے جاری میں جدھر جاتا ہوں
 
دیکھ کر ملک کے حالات کو ڈر جاتا ہوں دیکھ کر ملک کے حالات میں ڈر جاتا ہوں
اور پھر درد کی وادی میں اتر جاتا ہوں
جب وطن آیا تھا، آنکھوں میں بھرے تھے جگنو
واپسی پر میں لیے دیدۂ تر جاتا ہوں
جن پہ چلتا تھا میں گاتے ہوئے لہراتے ہوئے
اب میں چپ چاپ انہی راہوں سے گذر جاتا ہوں
در بدر پھرتے ہیں لیڈر مرے کاسہ لے کر
جب یہ سنتا ہوں تو میں شرم سے مر جاتا ہوں
بانٹتا پھرتا ہے پروانۂ موت آمرِ وقت
در پہ دستک بھی کوئی دے تو میں ڈر جاتا ہوں
خوف سے لوگ ہیں دبکے ہوئے کونوں میں سبھی
ہُو کا عالم ہے میں بستی میں جدھر جاتا ہوں
قاتل آزاد ہیں مقتل میں کھڑے ہیں معصوم
دیکھ کر ظلم یہ ٹکڑوں میں بکھر جاتا ہوں
نوجواں پھرتے ہوں آوارہ تو دل دکھتا ہے
مانگتے بھیک ہیں بچے تو ٹھٹھر جاتا ہوں یہاں موزوں لفظ تھا ٹھٹک جا تا ہوں ٹھٹرجانا تو سردی سے اکڑ جانے کو کہتے ہیں اور قافیہ کی بجاآوری میں ٹھٹک جاتا ہوں آ نہیں سکتا ۔۔۔۔۔
بھیس بدلے ہوئے پھرتے ہیں یہاں جیب تراش
ہاتھ خالی ہی میں ہر شام کو گھر جاتا ہوں ہاتھ خالی ہی لیے شام کو گھر جاتا ہوں
زورِ بازو سے ہی حق اپنا جہاں ملتا ہو
میں وہاں رکھ کے کھُلے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں میں وہاں رکھ کے ہتھیلی پہ یہ سر جاتا ہوں
اس جگہ دفن سب آبا مرے ہونے کے سبب جس جگہ دفن ہیں آبا وہ جگہ چھوڑ کے میں
سوچتا ہوں نہیں جاؤں گا مگر جاتا ہوں
شہ ہے خود خون خرابے میں ملوث مقبول
تخت کا کھیل ہے جاری میں جدھر جاتا ہوں
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
دیکھ کر ملک کے حالات کو ڈر جاتا ہوں دیکھ کر ملک کے حالات میں ڈر جاتا ہوں
اور پھر درد کی وادی میں اتر جاتا ہوں
جب وطن آیا تھا، آنکھوں میں بھرے تھے جگنو
واپسی پر میں لیے دیدۂ تر جاتا ہوں
جن پہ چلتا تھا میں گاتے ہوئے لہراتے ہوئے
اب میں چپ چاپ انہی راہوں سے گذر جاتا ہوں
در بدر پھرتے ہیں لیڈر مرے کاسہ لے کر
جب یہ سنتا ہوں تو میں شرم سے مر جاتا ہوں
بانٹتا پھرتا ہے پروانۂ موت آمرِ وقت
در پہ دستک بھی کوئی دے تو میں ڈر جاتا ہوں
خوف سے لوگ ہیں دبکے ہوئے کونوں میں سبھی
ہُو کا عالم ہے میں بستی میں جدھر جاتا ہوں
قاتل آزاد ہیں مقتل میں کھڑے ہیں معصوم
دیکھ کر ظلم یہ ٹکڑوں میں بکھر جاتا ہوں
نوجواں پھرتے ہوں آوارہ تو دل دکھتا ہے
مانگتے بھیک ہیں بچے تو ٹھٹھر جاتا ہوں یہاں موزوں لفظ تھا ٹھٹک جا تا ہوں ٹھٹرجانا تو سردی سے اکڑ جانے کو کہتے ہیں اور قافیہ کی بجاآوری میں ٹھٹک جاتا ہوں آ نہیں سکتا ۔۔۔۔۔
بھیس بدلے ہوئے پھرتے ہیں یہاں جیب تراش
ہاتھ خالی ہی میں ہر شام کو گھر جاتا ہوں ہاتھ خالی ہی لیے شام کو گھر جاتا ہوں
زورِ بازو سے ہی حق اپنا جہاں ملتا ہو
میں وہاں رکھ کے کھُلے ہاتھ پہ سر جاتا ہوں میں وہاں رکھ کے ہتھیلی پہ یہ سر جاتا ہوں
اس جگہ دفن سب آبا مرے ہونے کے سبب جس جگہ دفن ہیں آبا وہ جگہ چھوڑ کے میں
سوچتا ہوں نہیں جاؤں گا مگر جاتا ہوں
شہ ہے خود خون خرابے میں ملوث مقبول
تخت کا کھیل ہے جاری میں جدھر جاتا ہوں
بہت شکریہ، شکیل صاحب
آپ کی تجاویز کے مطابق تبدیلیاں لے آتا ہوں
 
Top