برائے اصلاح - کبھی جب ہجر کے لمحوں میں سورج جگمگائے گا

فلسفی

محفلین
محترم الف عین صاحب اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے۔

کبھی جب ہجر کے لمحوں میں سورج جگمگائے گا
ہمیں ان کی کلائی کا وہ کنگن یاد آئے گا

تصور میں جب ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے
ہمیں اس دم شبِ ہجراں کا اندھیرا ستائے گا

اب اس برسات میں فطرت بدل جائے گی پانی کی
لپٹ کر آنسوؤں سے آگ جب دل میں لگائے گا

معطر ہو گا ہر اک لفظ خوشبو سے، کبھی جب بھی
خیال ان کا مہک بن کر تخیل کو سجائے گا
یقیں پختہ ہے گو حالات ایسا کچھ نہیں کہتے
کہ دل کا چین ان کے ساتھ اک دن لوٹ آئے گا
زمیں پر چاندنی کی مسکراہٹ پھیل جائے گی
اندھیری رات میں جب چاند اس کو گدگدائے گا

انھیں ماضی میں جانے کی تڑپ بیتاب کردے گی
کوئی گزرا ہوا لمحہ جب ان کو یاد آئے گا

وفاؤں کے ترازو میں جو خود کو تول کر دیکھے
تو پھر اوقات اپنی فلسفیؔ بھی جان جائے گا​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سورج جگمگاتا نہیں ( بلکہ یہ تو جھلساتا ہے ) ۔
جگمگانا ،جھلملانا یا ٹمٹمانا وغیرہ (روشن ہونے میں) خاص کیفیت کے لیے استعمال ہوتے ہیں مثلاََ قمقمے ستارے چراغ وغیرہ ۔ سورج کے لیے جگمگانا عجیب لگتا ہے۔واللہ اعلم۔
دوسرے یہ کہ اندھیرا مفعولن نہیں بلکہ فعولن کے مساوی وزن پر مقبول ہے۔ البتہ مجھے یہ بہت زیادہ بڑا عیب نہیں لگتا لیکن بہتر وہی ہے ۔
کبھی جب بھی۔ یہ بیان کچھ پر تکلف سا ہے۔
 

فلسفی

محفلین
سورج جگمگاتا نہیں ( بلکہ یہ تو جھلساتا ہے ) ۔
جگمگانا ،جھلملانا یا ٹمٹمانا وغیرہ (روشن ہونے میں) خاص کیفیت کے لیے استعمال ہوتے ہیں مثلاََ قمقمے ستارے چراغ وغیرہ ۔ سورج کے لیے جگمگانا عجیب لگتا ہے۔واللہ اعلم۔
دوسرے یہ کہ اندھیرا مفعولن نہیں بلکہ فعولن کے مساوی وزن پر مقبول ہے۔ البتہ مجھے یہ بہت زیادہ بڑا عیب نہیں لگتا لیکن بہتر وہی ہے ۔
کبھی جب بھی۔ یہ بیان کچھ پر تکلف سا ہے۔
بہت شکریہ عاطف بھائی۔ اصل میں سورج کی زرد روشنی اور کنگن (سونے) کے رنگ کے ساتھ مشابہت کی بنیاد پر یہ شعر کہنے کی کوشش کی تھی۔ کچھ اور سوچنا پڑے گا یا پھر محبوب کا چاندی کا کنگن لے کردینا پڑے گا تاکہ چاند کی روشنی سے مشابہت ہوسکے۔

"اندھیرا" والی غلطی کرگیا ہوں۔ حالانکہ اسی غزل میں "اندھیری رات ۔۔" میں فعولن ہی باندھا ہے۔ ویسے "عروض" پر دونوں اوزان دکھا رہا ہے۔ کیا اساتذہ میں سے کسی نے "مفعولن" باندھا ہے اسے؟

"کبھی جب بھی" والے شعر کا متبادل سوچتا ہوں۔
 

فلسفی

محفلین
آپ دیوانِ مفاعیلن الگ مرتب کیجیے گا۔
میں پہلے آپ کو ٹیگ کرنے لگا تھا پھر سوچا کہ مفاعیلن کی خوشبو آپ کو خود ہی کھینچ لائے گی۔

ارے بھائی اب کیا کروں کوئی ایک مصرعہ مزاج کو اچھا لگ جاتا ہے تو اس پر غزل کہنے کی کوشش کرتا ہوں

 

الف عین

لائبریرین
ستارے کے لیے جھلملانا ٹھیک رہے گا۔ ٹمٹمانا چراغ کے لیے مناسب ھے۔
ٹمٹمانا میں یہ صورت شامل ہے کہ اب چراغ یا ستارہ بجھنے والا ہے، جھلملانا میں یہ صورت نہیں، محض دھیمے دھیمے چمکنے کے حسن کا ذکر لگتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ہمیں اس دم شبِ ہجراں کا اندھیرا ستائے گا
کو یوں کر سکتے ہو
اندھیرا شام ہجراں کا ہمیں جس دم ستائے گا
باقی اشعار درست ہیں
 

فلسفی

محفلین
ہمیں اس دم شبِ ہجراں کا اندھیرا ستائے گا
کو یوں کر سکتے ہو
اندھیرا شام ہجراں کا ہمیں جس دم ستائے گا
باقی اشعار درست ہیں
بہت شکریہ سر


شبِ ہجراں میں جب کوئی ستارہ جھلملائے گا
ہمیں ان کی کلائی کا وہ کنگن یاد آئے گا

اب اس برسات میں فطرت بدل جائے گی پانی کی
لپٹ کر آنسوؤں سے آگ جب دل میں لگائے گا

تصور میں جب ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے
اندھیرا شامِ ہجراں کا ہمیں جس دم ستائے گا

معطر ان کی خوشبو سے ہمارے لفظ ہوں گے ،جب
خیال ان کا مہک بن کر تخیل کو سجائے گا

یقیں پختہ ہے گو حالات ایسا کچھ نہیں کہتے
کہ دل کا چین ان کے ساتھ اک دن لوٹ آئے گا

زمیں پر چاندنی کی مسکراہٹ پھیل جائے گی
اندھیری رات میں جب چاند اس کو گدگدائے گا

انھیں ماضی میں جانے کی تڑپ بیتاب کردے گی
کوئی گزرا ہوا لمحہ جب ان کو یاد آئے گا

وفاؤں کے ترازو میں جو خود کو تول کر دیکھے
تو پھر اوقات اپنی فلسفیؔ بھی جان جائے گا​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
صرف ایک شعر میں ابھی کچھ کسر باقی ہے ۔۔۔

تصور میں جب ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے
اندھیرا شامِ ہجراں کا ہمیں جس دم ستائے گا
۔۔۔ یہاں الجھن ہنوز برقرار ہے ۔۔۔ جب ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے اور ہمیں 'جس دم' ستائے گا، دونوں میں وقت ہی کا ذکرہے ۔۔ نثر کیجئے تو، "جب تصور میں ان کی زلف محو رقص دیکھیں گے جس وقت شام ہجراں کا اندھیرا ہمیں ستائے گا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ بہتر ہے تصور میں ہم ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے۔۔ کر لیا جائے، تاکہ جب کے لفظ سے جو الجھن پیدا ہو رہی ہے، دور ہوجائے۔

۔۔۔​
باقی سب درست !
 

فلسفی

محفلین
صرف ایک شعر میں ابھی کچھ کسر باقی ہے ۔۔۔

تصور میں جب ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے
اندھیرا شامِ ہجراں کا ہمیں جس دم ستائے گا
۔۔۔ یہاں الجھن ہنوز برقرار ہے ۔۔۔ جب ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے اور ہمیں 'جس دم' ستائے گا، دونوں میں وقت ہی کا ذکرہے ۔۔ نثر کیجئے تو، "جب تصور میں ان کی زلف محو رقص دیکھیں گے جس وقت شام ہجراں کا اندھیرا ہمیں ستائے گا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ بہتر ہے تصور میں ہم ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے۔۔ کر لیا جائے، تاکہ جب کے لفظ سے جو الجھن پیدا ہو رہی ہے، دور ہوجائے۔

۔۔۔​
باقی سب درست !
نشاندہی کا بہت شکریہ

دوسرے مصرعے میں "جس" کے بجائے "اُس" ہے۔ یعنی

اندھیرا شامِ ہجراں کا ہمیں اُس دم ستائے گا
 
بہت شکریہ سر


شبِ ہجراں میں جب کوئی ستارہ جھلملائے گا
ہمیں ان کی کلائی کا وہ کنگن یاد آئے گا

اب اس برسات میں فطرت بدل جائے گی پانی کی
لپٹ کر آنسوؤں سے آگ جب دل میں لگائے گا

تصور میں جب ان کی زلف محوِ رقص دیکھیں گے
اندھیرا شامِ ہجراں کا ہمیں جس دم ستائے گا

معطر ان کی خوشبو سے ہمارے لفظ ہوں گے ،جب
خیال ان کا مہک بن کر تخیل کو سجائے گا

یقیں پختہ ہے گو حالات ایسا کچھ نہیں کہتے
کہ دل کا چین ان کے ساتھ اک دن لوٹ آئے گا

زمیں پر چاندنی کی مسکراہٹ پھیل جائے گی
اندھیری رات میں جب چاند اس کو گدگدائے گا

انھیں ماضی میں جانے کی تڑپ بیتاب کردے گی
کوئی گزرا ہوا لمحہ جب ان کو یاد آئے گا

وفاؤں کے ترازو میں جو خود کو تول کر دیکھے
تو پھر اوقات اپنی فلسفیؔ بھی جان جائے گا​
کیا کہنے......بہت عمدہ
 
Top