برائے اصلاح - ٹوٹا ہے دل ہمارا مگر تیرا کیا گیا

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

اے بے وفا! ہمیں جو تو عبرت بنا گیا
ٹوٹا ہے دل ہمارا مگر تیرا کیا گیا

مٹی کا ظرف توڑ کے مٹی میں پھینک کر
مجذوب زندگی کی حقیقت دکھا گیا

کچھ دیر پاس بیٹھ کے آنسو بہا کے وہ
خاموش رہ کے آنکھ سے شکوے سنا گیا

تاروں کو دیکھ کر شبِ ہجراں نے آہ کی
اور آ کے چاند آج ہمیں پھر رلا گیا

موسم حسین ہو نہ ہو وہ تو حسین ہے
جو دل کے گھر کو رنگِ وفا سے سجا گیا

پھولوں کے حالِ زار کا کس سے کریں گلہ
دنیا سے باغبانِ وفا جب چلا گیا

صیاد بدگمان ہے اپنی کمان سے
اک بار تیر اس کی نظر کا خطا گیا

دھندلا گئی نگاہ میں صورت یقین کی
بادل جب احتمال کا سوچوں پہ چھا گیا​
 
Top