برائے اصلاح و تنقید

نام اس کا لے کے کہتی ہے
اب وہ اس کو بھول چکی ہے

ایک کہانی اس نے سنائی
ایک غزل میں نے لکھی ہے

روک لیا کر وقت تو سانسیں
ساتھ مرے جب وہ چلتی ہے

اس کو غم ہے اور کسی کا
میرے گلے لگ کے روتی ہے

وقت کےہاتھ آنے کی ہے دیری
حسن ترا بھی اک تتلی ہے

شمع پہ مر مٹنے کو دیکھو
کتنی پتنگوں کو جلدی ہے

جس سے تیری خوشبو آئے
ایک غزل ایسی لکھنی ہے

اس دھرتی کی چیز نہیں وہ
چاند ستاروں سےملتی ہے

عشق کی آتش بڑھکا دے گی
حسن کی وہ جلتی تیلی ہے

جس کو نفرت ہے شعروں سے
داد مجھے اس سے لینی ہے
 
Top