برائے اصلاح و تنقید - کہا تم سے بهی کچھ نہیں جاتا

کہا تم سے بهی کچھ نہیں جاتا
صبر بهی مجھ کو اب نہیں آتا

وہ بالآخر اتر گیا روح تک
درد دل میں رکها نہیں جاتا

ہے ہدایت مجهے میرے رب کی!
مجهے کافر کوئی نہیں بهاتا

وہ دلوں میں سنا ہے رہتا ہے
مجهے ہی کیوں نظر نہیں آتا

بڑے الزام لگ چکے مجھ پر
تیرا شکوہ سہا نہیں جاتا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کہا تم سے بهی کچھ نہیں جاتا
صبر بهی مجھ کو اب نہیں آتا
÷÷÷صبر مجھ کو بھی اب نہیں آتا۔۔۔ شاید بہتر ہو۔۔
وہ بالآخر اتر گیا روح تک
درد دل میں رکها نہیں جاتا
÷÷÷روح تک وہ اتر گیا آخر۔۔
ہے ہدایت مجهے میرے رب کی!
مجهے کافر کوئی نہیں بهاتا
÷÷÷÷ کافر سے نہیں، کفر سے نفرت ہونی چاہئے۔۔۔ ہے ہدایت مجھے مرے رب کی، کفر مجھ کو کبھی نہیں بھاتا
وہ دلوں میں سنا ہے رہتا ہے
مجهے ہی کیوں نظر نہیں آتا
۔۔کیوں مجھے ہی نظر نہیں آتا
بڑے الزام لگ چکے مجھ پر
تیرا شکوہ سہا نہیں جاتا
÷÷÷یوں تو الزام مجھ پہ کتنے ہیں۔۔۔ تیرا شکوہ سہا نہیں جاتا،
میری اصلاح اس ضمن میں بجائے خود سوالیہ نشان بن سکتی ہے، لیکن جو سمجھ میں آیا ہے، لکھ دیا۔۔۔
 
کہا تم سے بهی کچھ نہیں جاتا
صبر بهی مجھ کو اب نہیں آتا

وہ بالآخر اتر گیا روح تک
درد دل میں رکها نہیں جاتا

ہے ہدایت مجهے میرے رب کی!
مجهے کافر کوئی نہیں بهاتا

وہ دلوں میں سنا ہے رہتا ہے
مجهے ہی کیوں نظر نہیں آتا

بڑے الزام لگ چکے مجھ پر
تیرا شکوہ سہا نہیں جاتا
سارہ جی آپ نے کہا تو عرض کیے دیتا ہوں ، ویسے آپ جانتی ہیں کہ میں خود ابھی سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں ، اتنی حیثیت نہیں کہ اصلاح کر سکوں، محفل کے اساتذہ کا منصب ہے یہ۔ اتنا کہ اپنی رائے پیش کر دیتا ہوں ، اُستاد محترم فرصت میں اصلاح فرمائیں گے

مجھے چین بھی تو نہیں آتا​
کہا تُم سے بھی کچھ نہیں جاتا​
اُترتا گیا روح تک میں وہ​
مگر کیا کہ رکھا نہیں جاتا​
ہدایت مجھے میرے رب کی ہے​
کبھی کوئی کافر نہیں بھاتا​
دلوں میں وہ رہتا اگر ہے​
مجھے ہی نظر کیوں نہیں آتا​
بہت سہہ لیے سب کے الزام​
نہیں اُس کا شکوہ سہا جاتا​
اب یہ کہ جاتا اور آتا ہی ہے ، دیکھ لیجیے آپ​
 
میری اصلاح اس ضمن میں بجائے خود سوالیہ نشان بن سکتی ہے، لیکن جو سمجھ میں آیا ہے، لکھ دیا۔۔۔


بہت شکریہ!
پہلا شعر اریجنلی میں نے ایسے ہی لکها تها "صبر مجه کو بهی اب نہیں آتا. میری کوشس ہے دو معانی والی بات کہنے کی. اس شعر کو یوں بهی دیکها جا سکتا ہے کہ میں تم سے کچه کہہ بهی نہیں سکتی اور بنا کہے چین بهی نہیں آتا. یا ایسے کہ تم کچه کہہ بهی بہیں سکتے اور مجهے بنا سنے چین بهی نہیں آتا.

کافر والے شعر میں تنز کرنے کی کوشش کی ہے میں نے. اس لئے نفرت کفر سے نہیں کافر سے کرتی ہوں کیونکہ کفر تو ہم خود بهی کرتے ہیں.. لیکن کافروں سے نفرت کرتے ہیں..

روح تک وہ اتر گیا آخر اچها لگا ہے :)

بڑے الزام یہ سوچ کر کہا ہے کہ اسکے بهی شاید دو معنی ہو سکتے تهے، مجه پر بڑے بڑے الزامات لگ چکے ہیں اب تمهارا چهوٹا سا شکوہ نہیں سہا جاتا ہے. اور عام طور پر ہم " بہت" کی جگہ بهی " بڑا" کا استعمال کرتے ہیں.

کیوں مجهے ہی نظر نہیں آتا - یہ بهی بہت اچها لگا ہے :)

فون سے لکه رہی ہوں غلطیوں کے لئے معافی چاہتی ہوں!
 
سارہ جی آپ نے کہا تو عرض کیے دیتا ہوں ، ویسے آپ جانتی ہیں کہ میں خود ابھی سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں ، اتنی حیثیت نہیں کہ اصلاح کر سکوں، محفل کے اساتذہ کا منصب ہے یہ۔ اتنا کہ اپنی رائے پیش کر دیتا ہوں ، اُستاد محترم فرصت میں اصلاح فرمائیں گے

مجھے چین بھی تو نہیں آتا​
کہا تُم سے بھی کچھ نہیں جاتا​
اُترتا گیا روح تک میں وہ​
مگر کیا کہ رکھا نہیں جاتا​
ہدایت مجھے میرے رب کی ہے​
کبھی کوئی کافر نہیں بھاتا​
دلوں میں وہ رہتا اگر ہے​
مجھے ہی نظر کیوں نہیں آتا​
بہت سہہ لیے سب کے الزام​
نہیں اُس کا شکوہ سہا جاتا​
اب یہ کہ جاتا اور آتا ہی ہے ، دیکھ لیجیے آپ​
Thank you! :)
 

اسد قریشی

محفلین
کہا تم سے بهی کچھ نہیں جاتا
صبر بهی مجھ کو اب نہیں آتا

وہ بالآخر اتر گیا روح تک
درد دل میں رکها نہیں جاتا

ہے ہدایت مجهے میرے رب کی!
مجهے کافر کوئی نہیں بهاتا

وہ دلوں میں سنا ہے رہتا ہے
مجهے ہی کیوں نظر نہیں آتا

بڑے الزام لگ چکے مجھ پر
تیرا شکوہ سہا نہیں جاتا


آپ کے پہلے مصرع کی تقطعی درج کر رہا ہوں اگر سمجھ میں آجائے تو اس ہی طرز پر تمام مصرعوں کو پھر سے ترتیب دیجئے:

ک ہا تم سے ب کچھ ن ہیں جاتا
لفظ "صبر" کا تلفظ درست نہیں، اس کو بروزنِ نذر یا بدر لیا جاتا ہے یعنی "صب ر" لہٰذا مصرعِ ثانی لفظ "صبر" سے شروع نہیں ہو سکتا، آپ کی غزل میں جو مصرعے وزن کے اعتبار سے درست ہیں وہ درج ذیل ہیں:
مجهے کافر کوئی نہیں بهاتا
مجهے ہی کیوں نظر نہیں آتا
بڑے الزام لگ چکے مجھ پر
تیرا شکوہ سہا نہیں جاتا
 
Top