امان زرگر
محفلین
...
یہ نگارِ شام ہو پر لطف گر ایسا کریں
سامنے بیٹھے رہیں وہ ہم انہیں دیکھا کریں
دل ہو پر امید وہ آ کر ملیں گےخواب میں
پھر خیالِ یار میں ہم رات بھر سویا کریں
ہم ادا کرتے پھریں گے ان کی گلیوں کو خراج
بام پر وہ آئیں، ہم کوچے سے جب گزرا کریں
وہ لبِ دریا ہی گہرائی ہیں بیٹھے سوچتے
کھوج پائیں گہرے پانی میں اگر اترا کریں
عمر بھر آرائشِ ابرو میں ہی کھوئے رہے
خواہشِ دل تھی کہ ان کو سر سے پا دیکھا کریں
سائے سے محروم ہے گرچہ ہے خود یہ سایہ دار
ایک پل کو بیٹھ کر زیرِ شجر سوچا کریں
کر سکے شہرِ یقیں کو ہم فقط دشتِ گماں
ایک خواہش تھی نئے شام و سحر پیدا کریں
نیم کش آنکھوں سے دل کا مدعا سمجھیں گے وہ
کیوں برائے عرضِ مطلب ہونٹ اپنے وا کریں
ہم سنائیں یہ غزل زرگر تمہارے نام سے
محفلِ شعر و ادب میں یوں تجھے رسوا کریں
یہ نگارِ شام ہو پر لطف گر ایسا کریں
سامنے بیٹھے رہیں وہ ہم انہیں دیکھا کریں
دل ہو پر امید وہ آ کر ملیں گےخواب میں
پھر خیالِ یار میں ہم رات بھر سویا کریں
ہم ادا کرتے پھریں گے ان کی گلیوں کو خراج
بام پر وہ آئیں، ہم کوچے سے جب گزرا کریں
وہ لبِ دریا ہی گہرائی ہیں بیٹھے سوچتے
کھوج پائیں گہرے پانی میں اگر اترا کریں
عمر بھر آرائشِ ابرو میں ہی کھوئے رہے
خواہشِ دل تھی کہ ان کو سر سے پا دیکھا کریں
سائے سے محروم ہے گرچہ ہے خود یہ سایہ دار
ایک پل کو بیٹھ کر زیرِ شجر سوچا کریں
کر سکے شہرِ یقیں کو ہم فقط دشتِ گماں
ایک خواہش تھی نئے شام و سحر پیدا کریں
نیم کش آنکھوں سے دل کا مدعا سمجھیں گے وہ
کیوں برائے عرضِ مطلب ہونٹ اپنے وا کریں
ہم سنائیں یہ غزل زرگر تمہارے نام سے
محفلِ شعر و ادب میں یوں تجھے رسوا کریں