برائے اصلاح و تنقید (غزل 62)

امان زرگر

محفلین
...
یہ نگارِ شام ہو پر لطف گر ایسا کریں
سامنے بیٹھے رہیں وہ ہم انہیں دیکھا کریں

دل ہو پر امید وہ آ کر ملیں گےخواب میں
پھر خیالِ یار میں ہم رات بھر سویا کریں

ہم ادا کرتے پھریں گے ان کی گلیوں کو خراج
بام پر وہ آئیں، ہم کوچے سے جب گزرا کریں

وہ لبِ دریا ہی گہرائی ہیں بیٹھے سوچتے
کھوج پائیں گہرے پانی میں اگر اترا کریں

عمر بھر آرائشِ ابرو میں ہی کھوئے رہے
خواہشِ دل تھی کہ ان کو سر سے پا دیکھا کریں

سائے سے محروم ہے گرچہ ہے خود یہ سایہ دار
ایک پل کو بیٹھ کر زیرِ شجر سوچا کریں

کر سکے شہرِ یقیں کو ہم فقط دشتِ گماں
ایک خواہش تھی نئے شام و سحر پیدا کریں

نیم کش آنکھوں سے دل کا مدعا سمجھیں گے وہ
کیوں برائے عرضِ مطلب ہونٹ اپنے وا کریں

ہم سنائیں یہ غزل زرگر تمہارے نام سے
محفلِ شعر و ادب میں یوں تجھے رسوا کریں
 

الف عین

لائبریرین
مشکل پسند نہیں رہے، اس کی مبارکباد۔
نگارِ شام ہو پر لطف گر ایسا کریں
سامنے بیٹھے رہیں وہ ہم انہیں دیکھا کریں
۔۔۔درست

دل ہو پر امید وہ آ کر ملیں گےخواب میں
پھر خیالِ یار میں ہم رات بھر سویا کریں
۔۔۔ 'ہو' سے کئئا تمنائی صیغہ ہے؟ میرے خیال میں 'دل میں ہے امید' سے زیادہ بہتر واضح ہوتا ہے۔

ہم ادا کرتے پھریں گے ان کی گلیوں کو خراج
بام پر وہ آئیں، ہم کوچے سے جب گزرا کریں
۔۔۔ اس میں بھی یہ واضح نہیں کہ ان کے بام پر آنے پر ان کی گلی سے گزرنے کا منصوبہ ہے یا یہ خواہش ہے کہ جب بھی ہم گزریں، یہ اتفاق ہو جائے!

وہ لبِ دریا ہی گہرائی ہیں بیٹھے سوچتے
کھوج پائیں گہرے پانی میں اگر اترا کریں
۔۔۔ شاید گہرا شعر ہے جس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا

عمر بھر آرائشِ ابرو میں ہی کھوئے رہے
خواہشِ دل تھی کہ ان کو سر سے پا دیکھا کریں
۔۔۔سر سے پا تک۔ 'تک' کی کمی ہے۔ ویسے محض ابرو کی آرائش کا شوق ہے محترمہ کو؟

سائے سے محروم ہے گرچہ ہے خود یہ سایہ دار
ایک پل کو بیٹھ کر زیرِ شجر سوچا کریں
۔۔ٹھیک

کر سکے شہرِ یقیں کو ہم فقط دشتِ گماں
ایک خواہش تھی نئے شام و سحر پیدا کریں
۔۔درست

نیم کش آنکھوں سے دل کا مدعا سمجھیں گے وہ
کیوں برائے عرضِ مطلب ہونٹ اپنے وا کریں
۔۔۔نیم کش آنکھیں؟ نظر کو تو کہہ سکتے ہیں لیکن آنکھوں کو نہیں ۔ اور ان سے مدعا سمجھنا! پتہ نہیں کیا کہنا چاہتے ہو؟
 

امان زرگر

محفلین
کچھ بہتری کے بعد پیشِ خدمت ہے۔

یہ نگارِ شام ہو پر لطف گر ایسا کریں
سامنے بیٹھے رہیں وہ ہم انہیں دیکھا کریں

دل میں ہے امید وہ آ کر ملیں گے خواب میں
پھر خیالِ یار میں ہم رات بھر سویا کریں

ہم ادا کرتے پھریں گے ان کی گلیوں کو خراج
بام پر وہ آئیں، ہم کوچے سے جب گزرا کریں!

یوں لبِ دریا تلاشِ خضر بار آور نہیں
کھوج پائیں گہرے پانی میں اگر اترا کریں

ان کی ایما پر رکا ہے نظمِ ہستی دیکھئے
گوشۂِ ابرو کدھر مائل وہ بے پروا کریں

عمر بیتی پیچ و تابِ زلف سے ابرو تلک
خواہشِ دل تھی کہ از سر تا بہ پا دیکھا کریں

سائے سے محروم ہے گرچہ یہ خود ہے سایہ دار
ایک پل کو بیٹھ کر زیرِ شجر سوچا کریں

کر سکے شہرِ یقیں کو ہم فقط دشتِ گماں
ایک خواہش تھی نئے شام و سحر پیدا کریں

وہ سمجھتے ہی نہیں آنکھوں سے دل کا مدعا
ہم برائے عرضِ مطلب ہونٹ اپنے وا کریں

ہم سنائیں یہ غزل زرگر تمہارے نام سے
محفلِ شعر و ادب میں یوں تمہیں رسوا کریں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ٹھیک ہو گئی ہے غزل ۔ خواہش دل کی ضرورت البتہ سمجھ نہیں سکا۔ "یہ تمنا تھی" کہنے میں کیا حرج ہے۔
 
Top