برائے اصلاح و تنقید (غزل 52)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
وہ عشق جو تھا، پہاڑ کیسے اکھڑ نہ جاتا!
وگرنہ کوشش عبث تھی پل میں پچھڑ نہ جاتا!

جڑا رہا تلخ موسموں میں بھی شاخ سے جو
وہ زرد پتا ذرا لرزنے پہ جھڑ نہ جاتا!

نئے زمانے کے طور مجھ کو ہلا ہی دیتے
قدم جو چرخِ کہن پہ ہوتا، اکھڑ نہ جاتا!

کسی بھی جانب سے اک تشفی کا لفظ سنتا
ستم رسیدہ سہی میں طوفاں سے لڑ نہ جاتا!

اگر کبھی ہوتیں ان سے محفل میں چار آنکھیں
جو مست نظروں کا تار تھا دل جکڑ نہ جاتا!

مری وفا میں بساط اتنی امان ہوتی
محبتوں میں نثار ہوتا، اجڑ نہ جاتا!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع کا ابلاغ نہیں ہوا۔ پچھڑنا کسی دوڑ میں ہوتا ہے، یہاں کسی مقابلے کی بات نہیں لگتی۔ اس کے علاوہ 'پل بھر میں' محاورہ ہے، محض 'پل میں' نہیں۔
اس کے علاوہ
مری وفا میں بساط اتنی امان ہوتی
یہاں بھی 'بساط بھر' زیادہ بہتر ہو۔
باقی اشعار درست ہیں ماشاء اللہ ۔
ہاں، یہاں شاید ٹائپو ہے
اگر کبھی ہوتی ان سے محفل میں چار آنکھیں
'ہوتیں' کا محل ہے
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
وہ عشق جو تھا، پہاڑ کیسے اکھڑ نہ جاتا!
ہزار کوشش عبث تھی دل بھی پچھڑ نہ جاتا!

یا مصارع کی ترتیب بدل دیں تو

ہزار کوشش عبث تھی دل بھی پچھڑ نہ جاتا!
وہ عشق تھا پھر پہاڑ کیسے اکھڑ نہ جاتا!

جڑا رہا تلخ موسموں میں بھی شاخ سے جو
وہ زرد پتا ذرا لرزنے پہ جھڑ نہ جاتا!

نئے زمانے کے طور مجھ کو ہلا ہی دیتے
قدم جو چرخِ کہن پہ ہوتا، اکھڑ نہ جاتا!

کسی بھی جانب سے اک تشفی کا لفظ سنتا
ستم رسیدہ سہی میں طوفاں سے لڑ نہ جاتا!

اگر کبھی ہوتیں ان سے محفل میں چار آنکھیں
جو مست نظروں کا تار تھا دل جکڑ نہ جاتا!


افق کی منزل بھی بس تھی دوگام پر سفر میں
اگر جو خورشید ہمسفر تھا، بچھڑ نہ جاتا!


مری وفا جو بساط بھر ہی امان ہوتی
محبتوں میں نثار ہوتا، اجڑ نہ جاتا!

سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
افق کی منزل تلک یہ دوگام کا سفر تھا
اگر جو خورشید ہمسفر تھا، بچھڑ نہ جاتا!
یا
افق کی منزل تو میری گردِ سفر میں ہوتی
اگر جو خورشید ہمسفر تھا، بچھڑ نہ جاتا!
یا
افق کی منزل تو میری گردِ سفر ٹھہرتی
اگر جو خورشید ہمسفر تھا، بچھڑ نہ جاتا!

سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مجھے مطلع کی دوسری شکل بہتر لگی۔
نئے شعر میں اگر اور جو کا ایک ساتھ ہونا اچھا نہیں لگا۔
جو آفتاب اپنا ہم سفر تھا، ۔۔۔
بہتر ہو گا۔
اولی مصرع تیسری شکل میں بہترین ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔۔
سر الف عین

ہزار کوشش عبث تھی دل بھی پچھڑ نہ جاتا!
وہ عشق تھا پھر پہاڑ کیسے اکھڑ نہ جاتا!

جڑا رہا تلخ موسموں میں بھی شاخ سے جو
وہ زرد پتا ذرا لرزنے پہ جھڑ نہ جاتا!

نئے زمانے کے طور مجھ کو ہلا ہی دیتے
قدم جو چرخِ کہن پہ ہوتا، اکھڑ نہ جاتا!

کسی بھی جانب سے اک تشفی کا لفظ سنتا
ستم رسیدہ سہی میں طوفاں سے لڑ نہ جاتا!

اگر کبھی ہوتیں ان سے محفل میں چار آنکھیں
جو مست نظروں کا تار تھا دل جکڑ نہ جاتا!

افق کی منزل تو میری گردِ سفر ٹھہرتی
جو آفتاب اپنا ہم سفر تھا، بچھڑ نہ جاتا!

مری وفا جو بساط بھر ہی امان ہوتی
محبتوں میں نثار ہوتا، اجڑ نہ جاتا!
 
Top