برائے اصلاح و تنقید (غزل 49)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
میں جو مدہوش ہوں مدہوش مجھے رہنے دے
چارہ گر! درد کے ہم دوش مجھے رہنے دے

خواہشِ جبہ و دستار نہیں ہے مجھ کو
خاک ہوں زینتِ پاپوش مجھے رہنے دے

جرم اتنا ہے چمکتا ہوں ستارہ بن کر
اشک ہوں، پلکوں کی آغوش! مجھے رہنے دے

ضبط ٹوٹا تو ترا نام زباں پر ہوگا
میں ہوں خاموش تو خاموش مجھے رہنے دے

تیری محفل سے اٹھا اور کدھر جاؤں گا
شاہِ میخانہ! ہوں مے نوش، مجھے رہنے دے

 

امان زرگر

محفلین
خوب۔
اچھی ہے۔
آخری شعر کے پہلے مصرع پر ایک صلاح
تیری محفل سے اٹھوں گا تو کدھر جاؤں گا
خوب صلاح ہے۔۔۔۔۔۔
ردیف قافیہ کی قید کے سبب "میں" کی کمی رہ گئی ہے۔
''مجھے'' میں ''میں'' کا مفہوم موجود تو ہے سو ''رعایتِ لفظی'' کے زمرہ میں آ تو سکتی ہے!
 

امان زرگر

محفلین
اشک ہوں۔ مجھے پلکوں کی آغوش میں رہنے دے۔

آپ ذرا اس مصرع کو نثر کی صورت لکھیں۔
جرم اتنا ہے چمکتا ہوں ستارہ بن کر
اشک ہوں، پلکوں کی آغوش! مجھے رہنے دے
پلکوں کی آغوش!۔۔۔۔۔ ''!'' اس علامت پہ شاید غور نہیں فرمایا آپ نے
 

الف عین

لائبریرین
'پلکوں کی آغوش!' سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آغوش سے ہی مخاطب ہیں۔ اس ندائی علامت کے بغیر شاید یہ سمجھا جا سکے کہ 'میں' محذوف ہے۔
باقی اشعار درست ہیں
 

امان زرگر

محفلین
'پلکوں کی آغوش!' سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آغوش سے ہی مخاطب ہیں۔ اس ندائی علامت کے بغیر شاید یہ سمجھا جا سکے کہ 'میں' محذوف ہے۔
باقی اشعار درست ہیں
سر میں سمجھ نہیں سکا کہ موجودہ صورت میں پلکوں کی آغوش والے شعر کو آپ نے درست قرار دیا یا غلط۔

جرم اتنا ہے چمکتا ہوں ستارہ بن کر
اشک ہوں، پلکوں کی آغوش! مجھے رہنے دے
 
سر میں سمجھ نہیں سکا کہ موجودہ صورت میں پلکوں کی آغوش والے شعر کو آپ نے درست قرار دیا یا غلط۔

جرم اتنا ہے چمکتا ہوں ستارہ بن کر
اشک ہوں، پلکوں کی آغوش! مجھے رہنے دے
درست کہا ہے، علامت سے بات واضح ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
...
میں جو مدہوش ہوں مدہوش مجھے رہنے دے
چارہ گر! درد کے ہم دوش مجھے رہنے دے

خواہشِ جبہ و دستار نہیں ہے مجھ کو
خاک ہوں زینتِ پاپوش مجھے رہنے دے

جرم اتنا ہے چمکتا ہوں ستارہ بن کر
اشک ہوں، پلکوں کی آغوش! مجھے رہنے دے

ضبط ٹوٹا تو ترا نام زباں پر ہوگا
میں ہوں خاموش تو خاموش مجھے رہنے دے

تیری محفل سے اٹھوں گا تو کدھر جاؤں گا
شاہِ میخانہ! ہوں مے نوش، مجھے رہنے دے
 

الف عین

لائبریرین
سر میں سمجھ نہیں سکا کہ موجودہ صورت میں پلکوں کی آغوش والے شعر کو آپ نے درست قرار دیا یا غلط۔

جرم اتنا ہے چمکتا ہوں ستارہ بن کر
اشک ہوں، پلکوں کی آغوش! مجھے رہنے دے
اس غلط فہمی کی طرف اشارہ تھا کہ علامت ! سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تخاطب آغوش سے ہے۔ یعنی علامت لگانے سے اور مبہم ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ریحان شاید مجھ سے متفق نہیں۔ علامت نکال دینے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر شاید 'میں' کو استعمال کرنا بھول گیا ہے۔ مجھے تو دونوں صورتوں میں شعر غلط ہی محسوس ہوا۔
 
Top