برائے اصلاح : وہ کم سے کم یہ ایک تو احسان کر گیا

مقبول

محفلین
محترم سر الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

وہ کم سے کم یہ ایک تو احسان کر گیا
خود آ کے میری موت کو آسان کر گیا

اک لفظ بھی ادا نہ ہوا اس کے روبرو
حالانکہ ، سب کہوں گا، میں تھا ٹھان کر گیا

محفل میں اک نگاہ بھی مجھ پر نہ ڈال کر
پیدا وُہ میری آنکھ میں طوفان کر گیا
——
“کوئی نہ سر اٹھا کے چلے” اب کے شہر میں
حاکم ہے جاری آج یہ فرمان کر گیا

آنکھوں کو بند رکھنا بھی لازم دیا قرار
سچ بولنا ہے جرم، وُہ اعلان کر گیا
——
مقبول اس کے پاس سوا اس کے تھا بھی کیا
جتنے بھی زخم تھے مجھے وہ دان کر گیا
 

عظیم

محفلین
محترم سر الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

وہ کم سے کم یہ ایک تو احسان کر گیا
خود آ کے میری موت کو آسان کر گیا
کم سے کم اور ایک تو اچھا نہیں لگ رہا
اتنا تو خیر مجھ پہ وہ احسان کر گیا۔ جیسا کچھ اور بھی کہا جا سکتا ہے
آسان اور احسان میں 'سان' کی وجہ سے ایطا بھی ہے
آسان کی جگہ اگر سامان کر لیں تو یہ سقم دور ہو سکتا ہے اور مفہوم بھی تقریباً وہی رہے گا

اک لفظ بھی ادا نہ ہوا اس کے روبرو
حالانکہ ، سب کہوں گا، میں تھا ٹھان کر گیا
اک لفظ بھی کہا نہ گیا اس کے روبرو
اسی طرح دوسرے کی روانی بھی بہتر بنانے کی کوشش کریں
'میں تھا ٹھان' کی وجہ سے روانی بہت کمزور ہو رہی ہے

محفل میں اک نگاہ بھی مجھ پر نہ ڈال کر
پیدا وُہ میری آنکھ میں طوفان کر گیا
صرف طوفان سے بات نہیں بن رہی، اشکوں کا طوفان ہوتا تو واضح ہونا تھا

“کوئی نہ سر اٹھا کے چلے” اب کے شہر میں
حاکم ہے جاری آج یہ فرمان کر گیا
'حاکم ہے جاری' کا ٹکڑا اگر بدلا جائے تو بہت بہتر ہو
یا ترتیب بدل کر دیکھ لیں
آنکھوں کو بند رکھنا بھی لازم دیا قرار
سچ بولنا ہے جرم، وُہ اعلان کر گیا
——
سچ بولنا بھی جرم ہے، اعلان کر گیا
فاعل دونوں میں غائب ہو جائے گا جو میرا خیال ہے کہ قابل اعتراض نہیں رہے گا۔

مقبول اس کے پاس سوا اس کے تھا بھی کیا
جتنے بھی زخم تھے مجھے وہ دان کر گیا
تھا اس کے سوا بھی کیا
وہ مجھے دان
 

مقبول

محفلین
شکریہ عظیم صاحب
م سے کم اور ایک تو اچھا نہیں لگ رہا
اتنا تو خیر مجھ پہ وہ احسان کر گیا۔ جیسا کچھ اور بھی کہا جا سکتا ہے
آسان اور احسان میں 'سان' کی وجہ سے ایطا بھی ہے
آسان کی جگہ اگر سامان کر لیں تو یہ سقم دور ہو سکتا ہے اور مفہوم بھی تقریباً وہی رہے گا
ایطا کا خیال تو میرے ذہن میں آیا ہی نہینں
کچھ اس طرح نہ کر دوں
پورا وہ میرا اتنا تو ارمان کر گیا
خود آکے میری موت کو آسان کر گیا
اک لفظ بھی کہا نہ گیا اس کے روبرو
اسی طرح دوسرے کی روانی بھی بہتر بنانے کی کوشش کریں
'میں تھا ٹھان' کی وجہ سے روانی بہت کمزور ہو رہی ہے
دیکھتا ہوں
صرف طوفان سے بات نہیں بن رہی، اشکوں کا طوفان ہوتا تو واضح ہونا تھا
دیکھتا ہوں
'حاکم ہے جاری' کا ٹکڑا اگر بدلا جائے تو بہت بہتر ہو
یا ترتیب بدل کر دیکھ لیں
دیکھتا ہوں
سچ بولنا بھی جرم ہے، اعلان کر گیا
فاعل دونوں میں غائب ہو جائے گا جو میرا خیال ہے کہ قابل اعتراض نہیں رہے گا۔
میں بھی یہی کرنا چاہتا تھا مگر فاعل کو لانے کے لیے ۔۔۔
تھا اس کے سوا بھی کیا
وہ مجھے دان
ایسے ہی کر دیا ہے

ایک اضافی شعر
کر کے گناہ کرتے ہیں مُلّا یہ پیش عذر
کہتے ہیں ہم نہیں ، یہ ہے شیطان کر گیا
یا
اندر ہمارے گھس /آ کے ہے شیطان کر گیا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عظیم سے متفق ہوں۔ مزید یہ کہ ٹھاننا خود ایک فعل ہے، ٹھان اسم نہیں، جو اسے کیا جا سکے۔ آسان لفظوں میں ٹھان کرنا خلاف محاورہ ہے
نیا شعر ویسے درست ہے اگر اس پر ہنگامہ نہ ہو جائے۔ دفع شر کے لئے بشر اچھی تجویز ہے روفی کی
 

مقبول

محفلین
عظیم سے متفق ہوں۔ مزید یہ کہ ٹھاننا خود ایک فعل ہے، ٹھان اسم نہیں، جو اسے کیا جا سکے۔ آسان لفظوں میں ٹھان کرنا خلاف محاورہ ہے
نیا شعر ویسے درست ہے اگر اس پر ہنگامہ نہ ہو جائے۔ دفع شر کے لئے بشر اچھی تجویز ہے روفی کی

بہت شکریہ سر الف عین
کافی شعرا نے (ٹھان کر ) اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے۔ دو بڑے شعرا کی مثالیں ریختہ میں یوں موجود ہیں
تم تیغ جور کھینچ کے کیا سوچ میں گئے
مرنا ہی اپنا جی میں ہم آئے ہیں ٹھان کر

میر تقی میر​

غرض ایک دن بات یہ ٹھان کر
لگا گھات پر اپنی وہ آن کر

میر حسن​

اور اگر ٹھان کر محاورہ نہیں ہو سکتا تو پھر شاید مان کر بھی نہیں ہو سکتا ہو گا لیکن خالد شریف صاحب کی جس غزل (وہ شخص سارےُشہر کو ویران کر گیا) کی زمین میں میری یہ غزل ہے اس میں انہوں نے (مان کر گیا) کو استعمال کیا ہے تو کیا انہوں نے غلط استعمال کیا ہے؟

سر، اب کیا حکم ہے

ملّا کے بارے میں سوچتا ہوں لیکن اگر ملّا کو بشر سے تبدیل کیا تو شعر میں کچھ خاص رہے گا نہیں جب تک کہ کوئی اور زوردار متبادل نہ ہو۔ یہ دیکھیے

کر کے گنہ ہیں کرتے مسلمان عذر پیش
کہتے ہیں ہم نہیں، یہ ہے شیطان کر گیا

یہ بھی دیکھ لیجیے
“کوئی نہ سر اٹھا کے چلے” اب کے شہر میں
جاری امیرِ وقت یہ فرمان کر گیا
یا
جاری ہے کوتوال یہ فرمان کر گیا
یا
آمر ہے جاری آج یہ فرمان کرُگیا

اس دوران خواہ مخواہ ایک اور شعر بھی ہو گیا

کیا کیا ثبوت عشق کے وُہ اور دے ابھی
اپنی انا بھی تجھ پہ جو قربان کر گیا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ٹھان کر آنا یا جانا درست ہے، لیکن ٹھان کر گیا مجھے غلط لگ رہا ہے، میں نے پپہلے تھا پر توجہ نہیں دی تھی۔ ٹھان کر گیا تھا درست محاورہ ہے، لیکن تھا کے بغیر غلط ہے، معذرت
 

الف عین

لائبریرین
سر اٹھا کےچلنا فیض سے مستعار ہے، واوین کے علاوہ حوالہ بھی دیا جائے ۔ ثانی مصرع امیر وقت کے ساتھ روانی میں بہتر ہے
آخری نیا شعر بھی درست ہے
 

مقبول

محفلین
ٹھان کر آنا یا جانا درست ہے، لیکن ٹھان کر گیا مجھے غلط لگ رہا ہے، میں نے پپہلے تھا پر توجہ نہیں دی تھی۔ ٹھان کر گیا تھا درست محاورہ ہے، لیکن تھا کے بغیر غلط ہے، معذرت
سر پلیز معذرت کر کے مجھے گنہگار نہ گریں ۔ آپ نعمت ہیں ہمارے لیے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
حوالہ کیسے دینا ہے؟
جیسا کہ یہ ناسخ کا شعر ہے۔
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

جب غالب نے ناسخ کا مصرع لیا تو کچھ اس ادا سے گرہ لگائی۔
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

لیکن مجھے لگتا ہے حوالہ دینے سے دوسرے مصرعے کا ربط پہلے مصرعے سے ٹوٹ جائے گا۔
 

مقبول

محفلین
جیسا کہ یہ ناسخ کا شعر ہے۔
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

جب غالب نے ناسخ کا مصرع لیا تو کچھ اس ادا سے گرہ لگائی۔
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

لیکن مجھے لگتا ہے حوالہ دینے سے دوسرے مصرعے کا ربط پہلے مصرعے سے ٹوٹ جائے گا۔
بالکل ۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا ۔ کیا فقط واوین سے کان نہیں چل سکتا؟
 

مقبول

محفلین
سر اٹھا کےچلنا فیض سے مستعار ہے، واوین کے علاوہ حوالہ بھی دیا جائے ۔ ثانی مصرع امیر وقت کے ساتھ روانی میں بہتر ہے
آخری نیا شعر بھی درست ہے
سر الف عین
حوالہ ڈالنا تو مشکل لگ رہا ہے۔ کیا ایسےٹھیک ہو گا
ہر کوئی /ایک سر جھکاکے چلے اب کے شہر میں
جاری امیرِ شہر یہ فرمان کر گیا
 
آخری تدوین:
ایک ممکنہ صورت:
۔۔۔۔۔۔غزل
آکے وہ میری موت کو آسان کر گیا
اٹکی تھی جان اُس میں ہی یہ جان کر گیا
اک لفظ بھی تو کہہ نہ سکا اس کے روبرو
حالانکہ سب کہوں گا جو تھا ٹھان کر گیا
محفل میں آنکھ بھر کے بھی دیکھا نہیں مجھے
اور پیدا چشمِ تر میں وہ طوفان کر گیا
’’۔کوئی نہ سر اٹھا کے چلے‘‘ شہر میں کہیں
جاری امیرِوقت یہ فرمان کرگیا

کر کے گناہ شیخ جی کرتے ہیں عذر یہ
ہم نے کہاں یہ کام تو شیطان کر گیا
کیا کیا ثبوت عشق کے وہ اور دے تجھے
تجھ پر جو اپنے آپ کو قربان کر گیا
تھا اُس کے پاس دینے کو مقؔبول اور کیا
زخمِ جگر سنبھال جو وہ دان کر گیا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
حوالہ دینے سے میری مراد شعری حوالہ نہیں، فٹ نوٹ سے تھی ۔ یعنی نیچے نوٹ دیا جائے کہ فیض کا مصرع ہے
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کےچلے
تاکہ قاری کو معلوم ہو سکے کہ شاعر نے فیض کا ٹکڑا دانستہ استعمال کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ایک ممکنہ صورت:
۔۔۔۔۔۔غزل
آکے وہ میری موت کو آسان کر گیا
اٹکی تھی جان اُس میں ہی یہ جان کر گیا
اک لفظ بھی تو کہہ نہ سکا اس کے روبرو
حالانکہ سب کہوں گا جو تھا ٹھان کر گیا
محفل میں آنکھ بھر کے بھی دیکھا نہیں مجھے
اور پیدا چشمِ تر میں وہ طوفان کر گیا
’’۔کوئی نہ سر اٹھا کے چلے‘‘ مثلِ فیض یاں
جاری امیرِ شہر یہ فرمان کرگیا

کر کے گناہ شیخ جی کرتے ہیں عذر یہ
ہم نے کہاں یہ کام تو شیطان کر گیا
کیا کیا ثبوت عشق کے وہ اور دے تجھے
تجھ پر جو اپنے آپ کو قربان کر گیا
تھا اُس کے پاس دینے کو مقؔبول اور کیا
زخمِ جگر سنبھال جو وہ دان کر گیا
اس شکل سے تو مقبول کا ورژن ہی بہتر تھا۔ لیکن تمہارے یہ دو مصرعے پسند آئے، مقبول قبول کر سکتے ہیں
اک لفظ بھی تو کہہ نہ سکا اس کے روبرو
جاری امیرِ شہر یہ فرمان کرگیا
 
Top