برائے اصلاح:مت پوچھ ہیں غم کتنے سنبھالے ہوئے ہم لوگ

مقبول

محفلین
محترمین
سر الف عین
محمد عبدالرؤوف صاحب
دیگر اساتذہ کرام و احباب
محمد عبدالروؤف صاحب سے معذرت کے ساتھ ان کی غزل (ہم لوگ) سے متاثر ہو کر اس کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دیکھیے میں اس کوشش میں کتنا ناکام ہوا ہوں

مت پوچھ ہیں غم کتنے سنبھالے ہوئے ہم لوگ
یا
تاریخ کو ہیں خوں سے اجالے ہوئے ہم لوگ
نیزوں کی ہیں نوکوں پہ اچھالے ہوئے ہم لوگ

ہر آنکھ میں وحشت ہے تو ہر ہاتھ ہے قاتل
رہبر ہیں یہ وُہ جن کے حوالے ہوئے ہم لوگ

صدیوں سے ہیں بندوق کے سائے میں ہی زندہ
صدیوں سے ہیں زندان میں ڈالے ہوئے ہم لوگ

کس کس نے ہمیں پاؤں کے نیچے نہیں روندا
کس کس کے نہیں منہ کے نوالے ہوئے ہم لوگ

بیچے گئے مذہب کبھی ملت کے بہانے
بازار میں بکتے ہوئے آلے ہوئے ہم لوگ

ہر بار ہی اک آگ کے شعلے سے نکل کر
اک اور الاؤ کے حوالے ہوئے ہم لوگ

جس نے بھی ہمیں دیکھا، حقارت سے ہی دیکھا
کب پیار محبت میں تھے پالے ہوئے ہم لوگ

سمجھا نہ کسی نے بھی ہمیں پیار کے قابل
پل بھر نہ کسی ہاتھ کے چھالے ہوئے ہم لوگ

ہم پر کسی بھی اور نے کالک نہیں تھوپی
یا
کیا تھوپنی تھی ہم پہ کسی اور نے کالک
خود اپنے گناہوں سے ہی کالے ہوئے ہم لوگ

ہم لوگ تو وہ ہیں جو ہوئے راندۂِ دَرگاہ
مقبول ہیں جنت سے نکالے ہوئے ہم لوگ
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واہ مقبول بھائی، غزل کی زمین اور مزاج دونوں کو نبھایا۔
لیکن کچھ اشعار سے لگتا ہے کہ آپ نے خیال کے پکنے کا انتظار نہیں کیا۔🙂
جیسا کہ مطلع، اچھالا ہوا بندہ کیسے کسی چیز کو سنبھالے رکھ سکتا ہے۔
تیسرا شعر
صدیوں سے ہیں بندوق کے سائے میں ہی زندہ
صدیوں سے ہیں زندان میں ڈالے ہوئے ہم لوگ

"بندوق کے سائے" تو جنگوں کی کے لیے کہا جاتا ہے۔

آپ دوسرے مصرع کو ایسے بھی کر سکتے۔
"جنگوں کی مصیبت میں ہیں ڈالے ہوئے ہم لوگ"

"کس کس نے ہمیں پاؤں کے نیچے نہیں روندا
کس کس کے نہیں منہ کے نوالے ہوئے ہم لوگ"

نوالوں کو پاؤں تلے روندا تو نہیں جاتا۔
اسی طرح باقی اشعار پر آپ خود ایک بار نظر ڈال لیں۔
 

مقبول

محفلین
جناب محمد عبدالرؤوف صاحب
آپ کی قیمتی رائے کے لیے شکر گذار ہوں۔ تاہمُ میں نے یہ سو چا نہیں تھا کہ ان اشعار کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے ۔ کچھ وضاحت بہرحال پیش کرتا ہوں
جیسا کہ مطلع، اچھالا ہوا بندہ کیسے کسی چیز کو سنبھالے رکھ سکتا ہے۔
میں نے تو یہ نہیں کہا کہ بندہ اچھلا ہوا ہے اور اسی حالت میں زخم سنبھالے ہوئے ہیں۔ میرا خیال تو سادہ سا تھا کہ نیزوں پر اچھالا گیا۔ بندہ مرا نہیں فقط زخمی ہوا ۔ اور وہ زخم ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا کہ سر اچھالا گیا یعنی بندہ مر گیا
آپ نے شاید بالکل شعر کو لفظی معنوں میں لیا ہے اور سمجھا ہے کہ خیال دونوں مصرعوں کو اس طرح لنک کر کے ہی مکمل ہو سکتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔
صدیوں سے ہیں بندوق کے سائے میں ہی زندہ
صدیوں سے ہیں زندان میں ڈالے ہوئے ہم لوگ

"بندوق کے سائے" تو جنگوں کی کے لیے کہا جاتا ہے۔
یہ بھی مجھے پہلی بار معلومُ ہوا ہے کہ بندوق کے سایے صرف جنگوں میں ہوتے ہیں
ہمارے پیارے ملک میں تو عموماً ہر وقت ہی بندوق کے سائے میں زندہ رہنا پڑتا ہے۔ مارشل لا، جیل، تھانے یا کسی بھی جبر کی حالت وغیرہ میں انسان بندوق کے سائے میں ہی ہوتا ہے
"کس کس نے ہمیں پاؤں کے نیچے نہیں روندا
کس کس کے نہیں منہ کے نوالے ہوئے ہم لوگ"

نوالوں کو پاؤں تلے روندا تو نہیں جاتا۔
میں نے یہ نہیں کہا کہ نوالوں کو پاؤں تلے روندا گیا ہے

روندا جانا اور نوالہ بننا دو الگ عمل ہے اور دو الگ الگ مصرعوں میں مکمل طور پر بیان ہوئے ہیں ۔ ایک عمل کو مکملُ کرنے کے لیے دوسرے مصرعے کی ضرورت نہیں ہے۔
میرے خیال میں کسی کے ساتھ مختلف اوقات میں مختلف واقعات ہو سکتے ہیں اور انہیں ایک شعر یا فقرے میں بیان بھی کیا جا سکتا ہے

دیکھتے ہیں استادِ محترم الف عین ، اور دیگر اساتذہ اور احباب کیا کہتے ہیں ۔ جو بھی اجتماعی رائے ہو گی اس کے مطابق تبدیلیاں کریں ۔
آپ کا ایک بار پھر شکریہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محترمین
سر الف عین
محمد عبدالرؤوف صاحب
دیگر اساتذہ کرام و احباب
محمد عبدالروؤف صاحب سے معذرت کے ساتھ ان کی غزل (ہم لوگ) سے متاثر ہو کر اس کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دیکھیے میں اس کوشش میں کتنا ناکام ہوا ہوں
تمہارے کلام میں اکثر حروف کا غیر ضروری اسقاط روانی بےطرح متاثر کرتا ہے۔ الفاظ بدل بدل کر دیکھا کرو کہ کسی طرح اسقاط سےچھٹکارا مل سکے ۔ ایک دوسری غلطی ترتیب میں ہوتی ہے ۔ بہتر روانی اس وقت ہوتی ہے جب لہجہ بات چیت سے یعنی نثر سے قریب تر ہو
مت پوچھ ہیں غم کتنے سنبھالے ہوئے ہم لوگ
یا
تاریخ کو ہیں خوں سے اجالے ہوئے ہم لوگ
نیزوں کی ہیں نوکوں پہ اچھالے ہوئے ہم لوگ
دوسرے مصرعے کو "ہیں نیزوں کی نوکوں" سے شروع کیا جائے تو روانی میں اضافہ ہو گا، اگرچہ نیزوں کے "وں" کا اسقاط ہو گا۔ پہلا مصرع قابل قبول ہے
اولی کا پہلا متبادل بہتر ہے
ہر آنکھ میں وحشت ہے تو ہر ہاتھ ہے قاتل
رہبر ہیں یہ وُہ جن کے حوالے ہوئے ہم لوگ
دوسرے میں کہنا یہ چاہیے تھا کہ یہ وہ رہبر ہیں! لیکن مجہول انداز بیان میں کہا گیا
صدیوں سے ہیں بندوق کے سائے میں ہی زندہ
صدیوں سے ہیں زندان میں ڈالے ہوئے ہم لوگ
بندوق کے سائے میں روفی کی بات درست ہے۔بموں کے دھماکوں کے سائے یا اس قسم کا کچھ اور کہو
کس کس نے ہمیں پاؤں کے نیچے نہیں روندا
کس کس کے نہیں منہ کے نوالے ہوئے ہم لوگ
مجھے درست لگ رہا ہے شعر
بیچے گئے مذہب کبھی ملت کے بہانے
بازار میں بکتے ہوئے آلے ہوئے ہم لوگ
آلے بازار میں ریڑھیوں پر تو نہیں ملتے!
ہر بار ہی اک آگ کے شعلے سے نکل کر
اک اور الاؤ کے حوالے ہوئے ہم لوگ
درست
جس نے بھی ہمیں دیکھا، حقارت سے ہی دیکھا
کب پیار محبت میں تھے پالے ہوئے ہم لوگ
کب کا کیا محل ہے یہاں دوسرے مصرعے میں؟
سمجھا نہ کسی نے بھی ہمیں پیار کے قابل
پل بھر نہ کسی ہاتھ کے چھالے ہوئے ہم لوگ
یہ درست نہیں خیال۔ ہاتھ کے چھالے احتیاط کا تقاضا کرتا ہے ورنہ پیار سے کون سجا سکتا ہے؟
ہم پر کسی بھی اور نے کالک نہیں تھوپی
یا
کیا تھوپنی تھی ہم پہ کسی اور نے کالک
خود اپنے گناہوں سے ہی کالے ہوئے ہم لوگ
تم خود سوچو کہ دوسرا متبادل بہتر ہے۔ پہلے میں کسی بھی، کسِبی تقطیع ہو رہا ہے
دوسرے میں وہی پنجابی لہجہ آگیا ہے"کسی اور کو" درست ہوتا لیکن پھر تنافر در آتا ہے
ہم لوگ تو وہ ہیں جو ہوئے راندۂِ دَرگاہ
مقبول ہیں جنت سے نکالے ہوئے ہم لوگ
درست
 

مقبول

محفلین
سر الف عین ، بہت نوازش
کچھ بہتری کی کوشش کی ہے
دوسرے مصرعے کو "ہیں نیزوں کی نوکوں" سے شروع کیا جائے تو روانی میں اضافہ ہو گا، اگرچہ نیزوں کے "وں" کا اسقاط ہو گا۔ پہلا مصرع قابل قبول ہے
اولی کا پہلا متبادل بہتر ہے
مت پوچھ ہیں غم کتنے سنبھالے ہوئے ہم لوگ
سجدوں میں ہیں نیزوں پہ اچھالے ہوئے ہم لوگ
وسرے میں کہنا یہ چاہیے تھا کہ یہ وہ رہبر ہیں! لیکن مجہول انداز بیان میں کہا گیا
رہبر یا اس جیسا کوئی لفظ جمع کے صیغے میں وزن پر ٹھیک نہیں بیٹھتا
ندوق کے سائے میں روفی کی بات درست ہے۔بموں کے دھماکوں کے سائے یا اس قسم کا کچھ اور کہو
صدیوں سے غلامی کے ہیں طوق اپنے گلوں میں
صدیوں سے ہیں زندان میں ڈالے ہوئے ہم لوگ
آلے بازار میں ریڑھیوں پر تو نہیں ملتے!
بیچے گئے مذہب کبھی ملت کے بہانے
ایندھن ہوئے یا جنگ کے آلے ہوئے ہم لوگ
کب کا کیا محل ہے یہاں دوسرے مصرعے میں؟
جس نے بھی ہمیں دیکھا، حقارت سے ہی دیکھا
نفرت کے سمندر میں ہیں پالے ہوئے ہم لوگ
ہ درست نہیں خیال۔ ہاتھ کے چھالے احتیاط کا تقاضا کرتا ہے ورنہ پیار سے کون سجا سکتا ہے؟
سر، ناولوں میں تو بہت پڑھا ہے کہ جس کو لوگ پیار کرتے ہیں اسے ہاتھُ کا چھالہ بنا کر رکھتے ہیں۔
باقی آپ جیسے فرمائیں گے ویسے ہی کر دیں گے
م خود سوچو کہ دوسرا متبادل بہتر ہے۔ پہلے میں کسی بھی، کسِبی تقطیع ہو رہا ہے
دوسرے میں وہی پنجابی لہجہ آگیا ہے"کسی اور کو" درست ہوتا لیکن پھر تنافر در آتا ہے
سر، میں نے بارہ جماعتوں تک اردو پڑھی ہے۔ ہیں ہمیشہ اس نے کا استعمال بتایا گیا ہے بدقسمتی سے۔ کبھی اس کو کا استعمال نہیں بتایا گیا 😁😁😁
مجھے تو تنافر کے ساتھ پڑھنا بہتر محسوس ہو رہا ہے ورنہ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے

کیا تھوپنی کالک تھی کسی اور کو ہمُ پر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اب اشعار بہتر لگ رہے ہیں
ہاتھ کے چھالے کے استعمال کے بارے میں دوسرے احباب کا کیا خیال ہے؟ سید عاطف علی محمد وارث
سر، میں نے بارہ جماعتوں تک اردو پڑھی ہے۔ ہیں ہمیشہ اس نے کا استعمال بتایا گیا ہے بدقسمتی سے۔ کبھی اس کو کا استعمال نہیں بتایا گیا
اس کو جانا تھا.. درست
اس نے جانا ہے... غلط
 
Top