برائے اصلاح - لے کر گئے تھے مجھ سے جو اس دل کا کیا ہوا؟

رانا

محفلین
ہاں بھائی جیتے رہو۔۔کیا یاد دلادیا۔ وہ بھی کیا زمانے تھے جب شاعر وں کی مجالس ہمارے بنا سجتی ہی نہ تھیں۔ ابھی ایک مشاعرے سے گھر بھی نہ پہنچے ہوتے تھے کہ دوسرے مشاعرے کے منتظمین ہمیں راستے سے ہی اچک لیا کرتے تھے۔بس پھر ہماری جو شامت آئی تو ایک نو آموز شاعر میں شاعری کے کچھ جراثیم دیکھ لئے ۔ دیکھنے میں تو حرج نہیں تھالیکن ہمارا جو برا ہوا اسکی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھا لیا۔ نتیجہ ظاہر کہ وہ تو آج کہنہ مشق شاعر بن گیا لیکن اس کی شاعری نکھارنے کے چکر میں ہمارے جو دماغ کی دہی بلکہ لسی اور وہ بھی کھٹی بنی کہ شاعری تو بہت سوں کی نکھاری لیکن اتنا دماغ کسی پر نہ خرچ کرنا پڑا تھا جو یہاں مروت میں کربیٹھے اور اب دماغ کی تختی سے عروض کی ساری گردانیں ہی صاف ہوگئی ہیں۔ یہ بھی یاد نہیں رہاکہ گردانیں عروض میں ہوتی تھیں یا کسی اور فن میں۔ خیر ہم یہ سوچ کر دل کو ڈھارس دے لیتے ہیں کہ ہم نے تو کافی شاعری کرلی اب کچھ نوآموزوں کو بھی موقع دینا چاہئے۔:)
 
آخری تدوین:

م حمزہ

محفلین
محترم برادرم! جن ایام میں آپ نے اپنا تعارف پیش فرمایا ہوا ہے وہ میرے سفر کے ایام تھے۔ اس لئے نظرسے نہ گزرا۔ مجھے لگا تھا کہ آپ شاید عظیم بھائی ہیں۔

خیر بہت اچھا لگا آپ کے متعلق جان کر۔ اللہ آپ کو ہر خوشی سے نوازے۔
 
محترم برادرم! جن ایام میں آپ نے اپنا تعارف پیش فرمایا ہوا ہے وہ میرے سفر کے ایام تھے۔ اس لئے نظرسے نہ گزرا۔ مجھے لگا تھا کہ آپ شاید عظیم بھائی ہیں۔

خیر بہت اچھا لگا آپ کے متعلق جان کر۔ اللہ آپ کو ہر خوشی سے نوازے۔
حمزہ بھائی یہ واقعی محمدعظیم الدین ہیں پر یہ والے نہیں ، وہ والے ہیں ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

لے کر گئے تھے مجھ سے جو اس دل کا کیا ہوا؟
دیکھو خود اپنے آپ کو، کس کا برا ہوا؟

واہ -

کرتے ہو "آپ" کہہ کے مخاطب تم اب مجھے
یہ طرزِ گفتگو تمھیں کیسے عطا ہوا

جون کا شعر یاد دلا دیا :

گرم جوشی اور اس قدر ،کیا بات
کیا تمھیں مجھ سے کچھ شکایت ہے

رکھا ہوا ہے ہاتھ کو سینے پر اس طرح
جیسے کہ میرا ہاتھ ہے دل سے جڑا ہوا

ایک ناشائستہ بات سوجھ رہی ہے - رہنے دیتا ہوں -

لگتا ہے کشمکش میں ابھی تک ہو مبتلا
تھامے ہوئے ہو ہاتھ میں کاغذ جلا ہوا

واہ -

غیرت کا نام سن کے طوائف نے یوں کہا
یہ پیٹ بھی تو ساتھ ہے صاحب لگا ہوا

یہ شعر دریا برد کر دیں -عذر گناہ بدتر از گناہ کی قبیل سے ہے -

جھوٹوں کے شہر میں وہ ترقی نہ کر سکا
سچ کے اصول پر تھا جو اب تک اڑا ہوا

خوب -واقعی -اپنا ایک شعر دفتر میں بھی سناتا ہوں تاکہ یار لوگ خوشامد سے باز آجائیں :

بات ہمیشہ خدا لگتی کہو
اے سی آر کی ایسی تیسی

پردہ ہٹا کے زیست کا دیکھو گے ایک دن
رازِ حیات موت کے اندر چھپا ہوا

پردہ آپ تو نہیں ہٹا رہے، اللہ ﷻہٹاتا ہے لہٰذا ایک شکل یہ ہوسکتی ہے :

پردہ ہٹے گا زیست کا تو دیکھ لیں گے ہم


مخلص جو مجھ سے تھے انھیں مشکوک کر گیا
وہم و گماں کی گرد سے منظر اٹا ہوا

خوب -
 

فلسفی

محفلین
بہت مہربانی شاہ جی۔
ایک ناشائستہ بات سوجھ رہی ہے - رہنے دیتا ہوں -
آپ نہ کہیں ہم سمجھ گئے :rollingonthefloor:

یہ شعر دریا برد کر دیں -عذر گناہ بدتر از گناہ کی قبیل سے ہے -
سچی بات ہے شاہ جی یہ عذر والی بات تو بالکل بھی ذہن میں نہیں تھی۔ میں نے تو زمانے کی ستم ظریفی کی بات کی ہے۔ مجھ سمیت ہم میں سے کتنے ایسے "صاحب" ہیں جو غیرت کی بات تو کرتے ہیں لیکن کسی ایسی خاتون کے سر پر دست شفقت رکھ کر اس کو بہن، بیٹی یا اپنا کر بیوی یا احتراما ماں کہہ کر اس کی معاشی مجبوری کی ذمے داری لیں۔ یقینا بہت کم ۔۔۔ میں تو اس کو معاشرے کے منہ پر طمانچے کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔ مردہ ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے۔ البتہ آپ کی عذر والی بات بالک درست ہے، لیکن میرے شعر کا وہ مطلب ہرگز نہیں۔

پردہ ہٹا کے زیست کا دیکھو گے ایک دن
رازِ حیات موت کے اندر چھپا ہوا

پردہ آپ تو نہیں ہٹا رہے، اللہ ﷻہٹاتا ہے لہٰذا ایک شکل یہ ہوسکتی ہے :

پردہ ہٹے گا زیست کا تو دیکھ لیں گے ہم
جی بہتر ہے۔ مجھے "تو" کا کھینچنا اچھا نہیں لگ رہا اس لیے یہ شکل مناسب لگتی ہے

پردہ ہٹے گا زیست کا، دیکھو گے ایک دن
 

یاسر شاہ

محفلین
مجھ سمیت ہم میں سے کتنے ایسے "صاحب" ہیں جو غیرت کی بات تو کرتے ہیں لیکن کسی ایسی خاتون کے سر پر دست شفقت رکھ کر اس کو بہن، بیٹی یا اپنا کر بیوی یا احتراما ماں کہہ کر اس کی معاشی مجبوری کی ذمے داری لیں۔ یقینا بہت کم ۔۔۔ میں تو اس کو معاشرے کے منہ پر طمانچے کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔ مردہ ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے۔ البتہ آپ کی عذر والی بات بالک درست ہے، لیکن میرے شعر کا وہ مطلب ہرگز نہیں۔
آپ ششماہی مبلغ پچاس ہزار روپے بھجوا دیا کریں -ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر شفقت سے میں پیش کر دیا کروں گا-:)
بہت کم ایسی ہونگی جو صرف پیٹ کی وجہ سے یہ دھندہ کرتی ہوں ،زیادہ تر مرد حضرات ہی انھیں مجبور کر دیتے ہیں یا نومولود بیٹی کو ایدھی کے جھولے میں ڈال آتے ہیں بعد ازاں دیگر مرد حضرات لے جاتے ہیں-مرد پھر سرخرو رہتا ہے یہ روسیاہ ٹھہرتی ہیں -
 

فلسفی

محفلین
آپ ششماہی مبلغ پچاس ہزار روپے بھجوا دیا کریں -ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر شفقت سے میں پیش کر دیا کروں گا-:)
شاہ جی آپ بھی اپنے مطلب کی بات پکڑتے ہیں :)۔ میں نے گذراش کی ہے کہ تناسب کیا ہے؟

مجھ سمیت ہم میں سے کتنے ایسے "صاحب" ہیں
بات جب عمومی کی جاتی ہے تو اکثریت کے مطابق بیان کی جاتی ہے۔ ممکنات ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن وہ مجموعی صورتحال کا متبادل ہرگز تصور نہیں ہوتیں۔

بہت کم ایسی ہونگی جو صرف پیٹ کی وجہ سے یہ دھندہ کرتی ہوں
زیادہ تر مرد حضرات ہی انھیں مجبور کر دیتے ہیں
شاہ جی دونوں صورتوں میں جو میں کہنا چاہ رہا ہوں اسی کی تائید ہوتی ہے۔ آپ اپنی پہلی بات شاید اندازے کے مطابق فرما رہے ہیں لیکن میں اپنی معلومات کے مطابق کہتا ہوں کہ زیادہ تر پیٹ کی وجہ سے مجبور ہیں۔ الحمدللہ، اللہ پاک نے اس ضمن میں عزت اور آبرو کی حفاظت فرمائی ہے لیکن کسی زمانے میں ایسے یار دوست رہے ہیں جو اس قسم کی معلومات دیتے رہتے تھے۔ ایسے ایسے ہوش ربا قصے ہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ پیٹ کی آگ انسان سے کیا کیا کرواتی ہے۔ عام طور پر انسان کو اخلاقیات تبھی سوجھتی ہیں جب پیٹ بھرا ہو ورنہ کسی بھوکے سے پوچھیں کہ دو اور دو کیا ہوتا ہے وہ کہے گا "چار روٹیاں"۔ ہر ایک کے ایمان کا وہ معیار نہیں ہوتا جو آپ تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے بہت کم ہیں جو بھوک میں بھی ایمان کی سلامتی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کی مجموعی صورتحال ایسی نہ ہوتی جو ہے۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہاں اخلاقیات کا درس دینے والے پر جب حالات آتے ہیں تو (اکثر) پہلے وہ خود بدکتا ہے (مشاہدے کی بات کر رہا ہوں، الا ماشاءاللہ، جسے اللہ پاک اپنی حفاظت میں رکھے)۔

تفصیل کے لیے معذرت، مقصد بحث برائے بحث نہیں بلکہ فقط اپنا نقطہ نظر پیش کرنا ہے۔ امید ہے آپ عاجز کی باتوں کا برا نہیں منائیں گے۔
 
Top