برائے اصلاح "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن"

میری غربت نے عجب حال بنا رکھا ہے
یہ بھلا ہی دیا کے مجھ میں کیا رکھا ہے
(بھول سا گیا میں کہ اس دل میں کیا رکھا ہے)

اپنی خو ھشا ت کو ہی پوچھ رہے ہیں یہاں سب
نام ہر ایک نے ان کا بھی خدا رکھا ہے

اس کی محلوق کو دن رات ستانے والوں
خود کو تم نے بھی کیا رب ہی بنا رکھا ہے

جانے والے تجھے اور تو ملے گا کیا مجھ سے
میرے ہونٹوں پہ فقط حرفِ دُعا رکھا ہے

ہم کو نائب بھی بنا ہے تو نے اپنا اور پھر
"ہم پہ کیوں موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے"

اب جو آؤ تو کوئی بات نئی کرنی ہے
یار چھوڑو کسی کی بات میں کیا رکھا ہے

موسی کے بھیس میں پھر تا ہے یہاں فرعون آج
خود کو اس نے بھی تو موسی ہی بتا رکھا ہے
سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کہاں ہو میرے مددگارو!!!!

میری غربت نے عجب حال بنا رکھا ہے
یہ بھلا ہی دیا کے مجھ میں کیا رکھا ہے
(بھول سا گیا میں کہ اس دل میں کیا رکھا ہے)
÷÷یاد رکھو کہ کیا، سوالیہ، میں ’ی‘ تقطیع میں شامل نہیں کی جاتی، محض ’کا‘ تقطیع ہوتا ہے۔ اور کیا، بمعنی کرنے کا فعل ماضی تو اس میں ’ی‘ کا تقطیع ہونا ضروری ہے۔دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے۔ جیسے
بھول جاتا ہوں کہ اس دل میں بھی کیا رکھا ہے

اپنی خو ھشا ت کو ہی پوچھ رہے ہیں یہاں سب
نام ہر ایک نے ان کا بھی خدا رکھا ہے
۔۔خواہشات وزن میں نہیں آتا۔ شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں ہوا۔

اس کی محلوق کو دن رات ستانے والوں
خود کو تم نے بھی کیا رب ہی بنا رکھا ہے
÷÷’والو‘ کا محل ہے، ’والوں‘ کا نہیں۔ مخلوق کو درست سمجھا ہوں نا!! تو رتب کی مخلوق سے بات واضح ہو سکے۔
دوسرا مصرع، وہی ’کیا‘ کا غلط استعمال۔
کیا خدا تم نے بھی اپنے کو بنا رکھا ہے۔ ۔۔۔۔ ایک فوری مجوزہ متبادل

جانے والے تجھے اور تو ملے گا کیا مجھ سے
میرے ہونٹوں پہ فقط حرفِ دُعا رکھا ہے
÷÷پہلا مصرع خارج از بحر۔
بیت الغزل ہے اس لیے اتنی محنت تو مجھ پر واجب ہے!!!
جانے والے تجھے کیا اور ملے گا مجھ سے

ہم کو نائب بھی بنا ہے تو نے اپنا اور پھر
"ہم پہ کیوں موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے"
÷÷’بنا ‘یا ’بنایا‘؟
ہم کو نائب بھی بنایا ہے جو اپنا تو نے

اب جو آؤ تو کوئی بات نئی کرنی ہے
یار چھوڑو کسی کی بات میں کیا رکھا ہے
۔۔ بہتر ہو دوسرا مصرع یوں کر دو
یار چھوڑو، اسی اک بات میں کیا رکھا ہے

موسی کے بھیس میں پھر تا ہے یہاں فرعون آج
خود کو اس نے بھی تو موسی ہی بتا رکھا ہے
۔۔آج تو بھرتی کا لفظ لگ رہا ہے۔ اس کے بغیر رواں بنانے کی کوشش کریں، جیسے
بھیس میں موسی کے فرعون بنا پھرتا ہے
 
کہاں ہو میرے مددگارو!!!!

میری غربت نے عجب حال بنا رکھا ہے
یہ بھلا ہی دیا کے مجھ میں کیا رکھا ہے
(بھول سا گیا میں کہ اس دل میں کیا رکھا ہے)
÷÷یاد رکھو کہ کیا، سوالیہ، میں ’ی‘ تقطیع میں شامل نہیں کی جاتی، محض ’کا‘ تقطیع ہوتا ہے۔ اور کیا، بمعنی کرنے کا فعل ماضی تو اس میں ’ی‘ کا تقطیع ہونا ضروری ہے۔دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے۔ جیسے
بھول جاتا ہوں کہ اس دل میں بھی کیا رکھا ہے

اپنی خو ھشا ت کو ہی پوچھ رہے ہیں یہاں سب
نام ہر ایک نے ان کا بھی خدا رکھا ہے
۔۔خواہشات وزن میں نہیں آتا۔ شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں ہوا۔

اس کی محلوق کو دن رات ستانے والوں
خود کو تم نے بھی کیا رب ہی بنا رکھا ہے
÷÷’والو‘ کا محل ہے، ’والوں‘ کا نہیں۔ مخلوق کو درست سمجھا ہوں نا!! تو رتب کی مخلوق سے بات واضح ہو سکے۔
دوسرا مصرع، وہی ’کیا‘ کا غلط استعمال۔
کیا خدا تم نے بھی اپنے کو بنا رکھا ہے۔ ۔۔۔۔ ایک فوری مجوزہ متبادل

جانے والے تجھے اور تو ملے گا کیا مجھ سے
میرے ہونٹوں پہ فقط حرفِ دُعا رکھا ہے
÷÷پہلا مصرع خارج از بحر۔
بیت الغزل ہے اس لیے اتنی محنت تو مجھ پر واجب ہے!!!
جانے والے تجھے کیا اور ملے گا مجھ سے

ہم کو نائب بھی بنا ہے تو نے اپنا اور پھر
"ہم پہ کیوں موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے"
÷÷’بنا ‘یا ’بنایا‘؟
ہم کو نائب بھی بنایا ہے جو اپنا تو نے

اب جو آؤ تو کوئی بات نئی کرنی ہے
یار چھوڑو کسی کی بات میں کیا رکھا ہے
۔۔ بہتر ہو دوسرا مصرع یوں کر دو
یار چھوڑو، اسی اک بات میں کیا رکھا ہے

موسی کے بھیس میں پھر تا ہے یہاں فرعون آج
خود کو اس نے بھی تو موسی ہی بتا رکھا ہے
۔۔آج تو بھرتی کا لفظ لگ رہا ہے۔ اس کے بغیر رواں بنانے کی کوشش کریں، جیسے
بھیس میں موسی کے فرعون بنا پھرتا ہے
جزاک اللہ سر
 
میری غربت نے عجب حال بنا رکھا ہے
بھول جاتا ہوں کہ اس دل میں بھی کیا رکھا ہے

اس کی محلوق کو دن رات ستانے والو!!
کیا خدا تم نے بھی اپنے کو بنا رکھا ہ

جانے والے تجھے کیا اور ملے گا مجھ سے
میرے ہونٹوں پہ فقط حرفِ دُعا رکھا ہے

ہم کو نائب بھی بنایا ہے جو اپنا تو نے
"ہم پہ کیوں موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے"

اب جو آؤ تو کوئی بات نئی کرنی ہے
یار چھوڑو، اسی اک بات میں کیا رکھا ہے

بھیس میں موسی کے فرعون بنا پھرتا ہے
خود کو اس نے بھی تو موسی ہی بتا رکھا ہے
سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
بھیس میں موسی کے فرعون بنا پھرتا ہے
خود کو اس نے بھی تو موسی ہی بتا رکھا ہے
اس پر دوبارہ غور کرنے سے پتہ چلا کہ دونوں مصرعوں میں ایک ہی بات الگ الگ الفاظ میں کہی گئی ہے، لیکن اس سے نتیجہ کیابرامد ہوا، ایک مسرعے میں اس کی ضرورت بھی محسوس ہوےی ہے۔ باقی تو میرے مشورے قبول کر ہی لیے گئے ہیں تو درست ہی ہو گئی ہے غزل
 
بھیس میں موسی کے فرعون بنا پھرتا ہے
خود کو اس نے بھی تو موسی ہی بتا رکھا ہے
اس پر دوبارہ غور کرنے سے پتہ چلا کہ دونوں مصرعوں میں ایک ہی بات الگ الگ الفاظ میں کہی گئی ہے، لیکن اس سے نتیجہ کیابرامد ہوا، ایک مسرعے میں اس کی ضرورت بھی محسوس ہوےی ہے۔ باقی تو میرے مشورے قبول کر ہی لیے گئے ہیں تو درست ہی ہو گئی ہے غزل
جزاک اللہ سر
 
(اپنی ہی ذات کہ بت پوجے رہے ہیں یہاں سب
نام ہر ایک نے ان کا بھی خدا رکھا ہے )

(اپنی ہی ذات کو سب پوجے رہے ہیں یہاں پر
نام ہر ایک نے اس کا بھی خدا رکھا ہے)
سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
ان دونوں اشعار میں ’یہاں‘ کو ’یَ ہَ ‘ تقطیع ہونا روانی کو مجروح کر رہا ہے۔ پہلا مصرع بدل دو۔ ویسے میں نے یہاں ’پوجے‘ کو محض ’پوج‘ پڑھ رہا ہوں، پوجے سے مفہوم برامد نہیں ہوتا۔
جیسے
لوگ سب پوج رہے ہیں یہاں بس اپنے ہی بت
 
ان دونوں اشعار میں ’یہاں‘ کو ’یَ ہَ ‘ تقطیع ہونا روانی کو مجروح کر رہا ہے۔ پہلا مصرع بدل دو۔ ویسے میں نے یہاں ’پوجے‘ کو محض ’پوج‘ پڑھ رہا ہوں، پوجے سے مفہوم برامد نہیں ہوتا۔
جیسے
لوگ سب پوج رہے ہیں یہاں بس اپنے ہی بت
سر کوشش کرتا ہوں
 
Top